ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے

ساخت وبلاگ
ذرا سی لاپرواہیتحریر: ڈاکٹر اکرام الحق اعوانیہ میرے بچپن کی بات ہے۔ اللہ دتہ اپنے گھر بیٹھا، حقے کے کش لگانے میں مصروف تھا۔ اللہ دتہ کی بیوی”مہراں بی“ اگلے دن کی خوراک کا بندوبست کرنے کی خاطر دانے صاف کر رہی تھی۔ان دونوں کا چھ سالہ اکلوتا بیٹا ”طالب“ گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔۔۔۔کہ یکدم طالب نے زور دار چیخ ماری اور کانپنا شروع کر دیا۔۔۔۔اللہ دتہ اور مہراں دونوں اپنے بیٹے کی جانب لپکے، انہوں نے طالب کو چارپائی پر لٹایا اور اسکے بازوٗوں، ٹانگوں اور پیٹ کو سہلانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔طالب کا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن اس کے منہ سے آواز نہ نکل پا رہی تھی۔۔۔۔۔مہراں بھاگی بھاگی قریبی میڈیکل سٹو ر پر گئی اور وہاں موجود ڈسپنسر کے مشورے سے پیرا سیٹامول کی بوتل لا کر طالب کے منہ میں اس کی ایک چمچ انڈیل دی۔۔۔۔۔۔ لیکن طالب کی حالت میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہ ملی۔ مہراں نے وہ تمام گھریلو ٹوٹکے بھی آزما لئے جو اس سے پہلے اسکی دادی خود اس پر آزمایا کرتی تھی۔ لیکن آج کوئی ٹوٹکہ بھی اسکے کام نہ آسکا۔۔۔۔۔۔طالب کی حالت بگڑے گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ حالت سدھرنے کی بجائے مزید بگڑتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔اب تو طالب کو باقاعدہ دورے (fits)پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔۔جسم کپکپا رہا تھا اور ماتھے کا درجہ حرارت بھی بڑھ چکا تھا۔۔۔۔مہراں اور اللہ دتہ، دونوں کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔۔۔۔۔ کس سے مدد مانگیں۔۔۔۔۔اتنی دیر میں محلے والے بھی انکے گھر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ انکے گھر کے صحن میں اچھا خاصا رش لگ چکا تھا۔پرانا زمانہ تھا۔ خود غرضی کا ماحول نہ تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے کام آنے میں فرحت محسوس کر تے تھے۔۔۔۔۔۔ محلے کا کوئی شخص جا کر محلے کے و ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 4 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

ایک کالم ایک تبصرہ | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات ایک کالم ایک تبصرہآج نذر حافی صاحب کا کالم پڑھتے ہوئے مجھے اپنا ماضی یاد آگیا۔✍️/___سید فصیح کاظمی___/خصوصا جب کالم ختم ہوا تو میں کافی دیر تک اپنے پرائمری اسکول کے دوستوں اور اساتذہ کو یاد کرتا رہا۔ پوری کلاس میں اکیلا میں ہی شیعہ طالب علم تھا۔ مجھے کوئی سنی شیعہ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتی تھیں۔ صرف اتنا جانتا تھا کہ میرا تعلق ایک شیعہ خاندان سے ہے۔میرے کلاس فیلوز میں کچھ لڑکے جو ہمارے سکول کے اطراف میں ہی رہتے تھے وہ اہل تشیع کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کے بقول جو مولانا ان کی مسجد کے امام تھے وہ کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک ممبر تھے۔ اکثر وہ لڑکے شیعوں کی تکفیر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم سپاہ صحابہ والوں کا مقصد ہی شیعوں کو ختم کرنا ہے۔ چونکہ بچپن کا دور تھا ہم ایسی باتوں کو زیادہ دل پر نہیں لیتے تھے۔ ایک ساتھ کھیلنا کودنا جاری رہتا تھا۔ان کے بقول وہ مولوی صاحب شیعوں کے خلاف باقاعدہ ٹریننگ کر کے آئے تھے اور پہلے کسی ادارے میں بھی تھے جہاں وہ شیعہ ہونے کی وجہ سے معصوم لوگوں کو جیل میں ڈالتے تھے۔ایک لڑکا جو مولوی صاحب کے پاس قرآن پڑھتا تھا مولوی صاحب کی ٹریننگ کے بارے میں کہتا تھا کہ مولوی صاحب خاردار تاروں کو پاؤں کے پنجے اور انگلیوں کے اوپر کھڑے ہو کر کراس کیا کرتے تھے۔یوں ہی کافر کافر کھیلتے ہم ساتویں کلاس میں پہنچ گئے۔ وہی مولوی صاحب جس کے بارے میں یہ سب باتیں ہم نے سن رکھی تھیں ہمارے استاد کی شکل میں ہمارے سرکاری سکول میں اسلامیات پڑھانے آنے لگے۔ ہمارے سکول میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے مولوی صاحب کو بلایا جاتا تھا۔ سکول کا موجودہ سینئیر اسٹاف ہی ان کا ہم مسلک تھا لہذا وہ مولوی صاح ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 4 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

ریاست چاہیے تو نظریات بچائیےنذر حافی[email protected]اگر ہم واقعتاً اس ملک سے کرپشن اور شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا پڑے گاکہ آخر ہماری نئی نسل میدانِ عمل میں آتے ہی کرپشن کی شکار کیوں ہو جاتی ہے اور شدت پسندوں کی کے پیچھے کیوں چلنا شروع کر دیتی ہے!؟ہمارے دینی مدارس اور کالجز کے طالب علم طالبان، القاعدہ اور داعش کے نظریات سے کیسے متاثر ہوجاتےہیں!؟ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس وقت مسلک وہابیت اور مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب میں کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دیوبندی مکتب کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں بھی کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سعودی عرب یا ہندوستان میں اہلحدیث، دیوبندی اور وہابی مسالک کے لوگ کبھی بھی اسلحہ نہیں اٹھاتے ! کیوں آخر کیوں!؟اس کے لئے ہمیں اپنی درسی کتابوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے نصابِ تعلیم اور ماحول میں ایسا کیا ہے کہ ہم کرپٹ بھی ہیں اور شدّت پسند بھی؟سی ٹی ڈی صوبہ سندھ کے مطابق اس وقت مدارس کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلی تعلیم یافتہ طالبعلم لے رہے ہیں۔ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق پہلے جو مدارس سے پڑھتے تھے وہ افغانستان یا وزیرستان جا کر جہاد کرتے تھے لیکن اب یہ نئی کھیپ جامعات سے تعلیم یافتہ ہے اور انھوں نے یہ جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کراچی میں داعش کی موجود گی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس، گلشن اق ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 4 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

شیعہ عقائد اور حقائقنذر حافیPDFمغالطے کسی درد کا درمان نہیں کرتے۔ ہمارا مقصد کسی پروپیگنڈے کا جواب دینا یا جوابی پروپیگنڈہ ہرگز نہیں۔فقط حقائق کا انکشاف مقصود ہے۔صاحبانِ تحقیق بخوشی تحقیقی معیارات کے مطابق قلم فرسائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ ِ اسلام اور اہلِ تشیع ہم عمر ہیں۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں ہی صحابہ کرام کا ایک گروہ شیعانِ علی کہلاتا تھا۔ ابوحاتم رازی[1]، ابن خلدون[2]، محمد کردعلی[3]، صبحی صالح [4]، عبدالله عنّان [5]سمیت بہت سارے اہل سنت علما اور دانش مندوں نے لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی علیہ و آلہ کے زمانے میں ہی متعدد صحابہ کرام ؓ ؓ کو شیعیانِ علی کہاجاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے صحابہ کرام ؓ اُسی زمانے میں یہ جان گئے تھے کہ پیغمبرِ اسلام ؐ کی عدم موجودگی میں صرف حضرت علی ؑ ہی مسلمانوں کے سرپرست اور ولی ہیں۔ بطورِ خاص حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، مقداد بن اسوؓد، حضرت مالِكِ بنِ نوَيرَة، جابر بن عبداللهؓ، ابی بن کعبؓ، ابوالطفیل عامر بن واثلهؓ، عباس بن عبد المطلبؓ و اور ان کی تمام اولاد، عمار یاسرؓ ،ابو ایوب انصاریؓ ، أبى سعید الخدرى ، وحذیفة بن الیمان ، خزیمة بن ثابت ، خالد بن سعید بن العاص ، قیس بن سعد بن عُبادہ خَزرَجی کو شیعیان علیؑ میں سے جانا جاتا تھا۔[6] اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ نبیؐ کے زمانے میں ہی شیعیان علیؑ کا گروہ ہی نہیں تھا تو ہمیں خوشی ہو گی۔ نبی اکرمؐ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ گروہ نبی اکرمؐ کی احادیث اور تاکید کی روشنی میں حضرت امام علی ؑکی ولایت و امامت پر قائم رہا۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ کا مسئلہ پیش آیا تو اسی گروہ نے اربابِ اقتدار کے مدِّ مقابل مزاحمتی کردار اداکیا۔ ہم نہایت ہی فراخدلی کے ساتھ یہ ت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 17 تاريخ : جمعه 10 فروردين 1403 ساعت: 14:13

اہلِ تشیع کا عقیدہ امامت اورکچھ مشہور غلط فہمیاںنذر حافیحاجی ذوالفقار علی صاحب امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کا ایک آدھ سال پہلے غائبانہ تعارف ہوا۔اس دوران گاہے بگاہے تاریخ اسلام کے حوالے سے ان کی آرا اور نکتہ نظر آڈیوز کی صورت میں سنتا رہا۔ مجھے اکثر ایسی معلوماتی اور منفرد آڈیوز بھیجنے کا کار خیر محترم یوسف رضا دھنیالہ صاحب انجام دیتے رہتے ہیں۔یوں سال بھر ہمارے درمیان ایک غیر اعلانیہ مکالمہ، تبادلہ فکر اور نظریاتی تعامل جاری رہتا ہے۔انسانی معاشرے میں باہمی تعامل ایک لازمی امر ہے۔ اس تعامل کے رُشد، ارتقا اور نکھار کیلئے ایک دوسرے کے اخلاق، رویّوں، عقائد، آداب ، رسومات اور نظریات سے درست آشنائی ضروری ہے۔گزشتہ روز محترم حاجی ذوالفقار صاحب نے اہلِ تشیع کے عقائد کے عقیدہ امامت کے حوالے سے چند ایسے سوالات کئے کہ میں ششدر رہ گیا۔ حاجی صاحب کی تاریخِ اسلام پر اچھی خاصی دسترس ہے۔ میں یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ان جیسے آدمی کو کسی نے شیعہ عقائد کے حوالے سے جو بھی بتایا ہے وہ غلط بتایا ہے۔ ظاہر ہے غلط معلومات کی کوکھ سے غلط فہمیاں ہی جنم لیتی ہیں۔میں نے اُن کے لئے جہاں آڈیو میسج میں وضاحت پیش کی وہیں اس وضاحت کو مکتوب بھی کر رہا ہوں تاکہ ہمارا یہ مکالمہ بصورت سند محفوظ رہے۔ حوالہ جات کے ساتھ اس مضمون کو آپ مفصّل انداز میں اسلام ٹائمز پر پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں فقط اُس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ابتدا میں ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امامت کو شیعہ اپنے بنیادی عقائد یعنی اصول دین میں شامل کرتے ہیں۔ شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نبیؐ نے جہاں اپنے بعد بارہ اماموں کے بارے میں بتایا ہے وہیں یہ بھی فرمایا ہے کہ جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا وہ جہالت کی موت مرا۔یہ حدیث اہلِ سُنّت اور اہلِ تشیع یعن ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 21 تاريخ : جمعه 10 فروردين 1403 ساعت: 14:13

ہمارا بڑا مسئلہ | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات ہمارا بڑا مسئلہنذر حافیایچی سن کالج کے پرنسپل مسٹر مائیکل تھامسن کے استعفے پر آپ کی نظر ہوگی۔ اسٹاف کے نام انہوں نے اپنے لکھے خط میں کہا ہے کہ بورڈ کی سطح پر جو ہو رہا ہے، وہ آپ سب کو معلوم ہے۔ انتہائی بری گورننس کے تسلسل کی وجہ سے میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں ۔ ایک وفاقی وزیر کے بچوں کے جرمانہ معافی معاملے پر اختلافات کے بعد یہ سب ہوا ہے۔ آسٹریلوی نژاد مائیکل تھامسن کو آخر حق کیا پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے وطن کی گورننس پر بات کریں؟اگر گورننس ہی دیکھنی ہے تو عوام پر ٹیکس لگانے کی ہماری گورننس دیکھیں۔ اپنے گھر میں اب بور کھود کر پانی نکالنے پر بھی ٹیکس لگ چکا ہے، بجلی کا میٹر آپ اپنا بھی خرید کر لگائیں تو وہ گویا آپ نے کرائے پر لیا ہے، اُس کا بھی ماہانہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ۔۔مزید گورننس کسے کہتے ہیں؟ابھی گزشتہ روز ہی ۲۷ لاکھ پاکستانیوں کا ڈیٹا نادرا سے چوری ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ ڈیٹا چوری میں ملتان، پشاور اور کراچی کے نادرا دفاتر ملوث پائے گئے۔ یہ چوری شُدہ ڈیٹا ملتان سے پشاور اور پھر دبئی گیا، نادرا ڈیٹا کے ارجنٹائن اور رومانیہ میں فروخت ہونے کے شواہد بھی ملے۔اب ایسے کاروبار ہماری بیوروکریسی اور اشرافیہ تھوڑے کرتی ہے۔ان چیزوں کا گورننس سے آخر کیا تعلق ہے؟گزشتہ کئی سالوں سے تفتان بارڈر کے حوالے سے عوام کو یہ پریشانی ہے کہ بارڈر پر ہمارا ڈیٹا جمع کرنے والے سرکاری کارندوں کا لوگوں کے ساتھ برتاو اور ڈیٹا جمع آوری کا طریقہ کار انتہائی ناقص ہے۔ عوامی شکایات پر کسی نے توجہ نہیں دی اور نہ ہی دی جانی چاہیے۔ ڈیٹا چوری ہونے کا خدشہ ظاہر کرنے والوں کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ آج ہی ایران میں اغواء ہونے والے تین پاکستانیو ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 17 تاريخ : جمعه 10 فروردين 1403 ساعت: 14:13

انتخابات کے بعد!اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہوشیار باش ✍️: عارف بلتستانیبقا اور ارتقا کےلئے مزاحمت ضروری ہے۔ مزاحمت کیلئے امتحان، دشمن اور مشکلات چاہیے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ دشمن ، امتحانات اور مشکلات سے برسر پیکار رہے۔ کسی بھی صورت میں مزاحمت سے ہاتھ نہ اٹھائے۔ مزاحمت سے ہاتھ اٹھانا یعنی زوال اور شکست کے لئے راضی ہونا۔ وہ دشمن چاہے داخلی ہو یا خارجی، دشمن، دشمن ہی ہوتا ہے۔دشمن کو کبھی اپنا ولی، حاکم اور آقا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ عقل انسانی کے منافی ہے۔ پاکستانی جب مسلمان ہیں اور ایک قوم ہیں تو پھر وہ کیسے اپنے دشمنوں کو اپنا آقا مان سکتے ہیں؟۔ مسلمانوں اور پاکستانیوں کے دشمن مسلمان فرقے نہیں بلکہ یہود و نصاری اور ہنود نیز انکے چیلے ہیں جو آج بھی وطن عزیز میں مسلکی اور مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ہمارے دشمن اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، جب تک ہم انہی میں سے ایک نہ ہو جائیں یا ان کے نقشِ قدم پر نہ چل پڑیں۔ مسلمانوں نے آخری چند صدیوں میں جہاد و مزاحمت سے ہاتھ اٹھایا ہے تو تمدن اسلامی پر تمدن اٹلانٹک (غرب) نے غلبہ حاصل کر لیا ۔ اس موضوع پر "مقاومت اور مقاومتی بلاک" نامی کالم میں ہم نے تفصیلی بحث کی ہے۔اس کالم میں ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ امریکہ رو بہ زوال ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ وہ اب منطقے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس لیے رجیم چینج کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسی صورت حال میں پالیسی ساز شخصیات، ادارے اور عوام کو چاہیئے کہ اسی کا ساتھ دیں، جو امریکہ مخالف پالیسی رکھتا ہو اور سوچنا بھی چاہیئے کہ تمدن اسلامی کے بجائے تمدن غرب کی بقا کے لئے کیوں جنگ لڑ رہے ہیں۔؟ لیکن یہ یاد رکھئے کہ جس نے بھی امریکہ کی خ ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 28 تاريخ : دوشنبه 30 بهمن 1402 ساعت: 14:30

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 57 تاريخ : دوشنبه 30 بهمن 1402 ساعت: 14:30

نظامِ امامت یا؟ | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات نظامِ امامت یا؟✍️: محمد بشیر دولتیمیں کئی سالوں سے قبلہ سید جواد نقوی کو سنتا اور پڑھتا آ رہا ہوں۔وہ میرے آج بھی پسندیدہ خطیب ہیں۔ ان کی دینی و علمی اور ثقافتی خدمات کا معترف ہوں۔ اس وقت ان کے کافی نظریات اور روش علمی نقد کے قابل ہیں ان پر پھر کبھی تفصیلی بات ہوگی۔میں نے انہیں بیس مارچ دوہزار تیئیس میں ""وطن کی فکر کر ناداں""کانفرنس کرتے دیکھا تھا ۔اس کانفرنس کی اہم بات حکومت پاکستان کی طرف سے شائع شدہ کتاب "پیام پاکستان" کی تشہیر تھی۔ موصوف مختلف کانفرنسوں میں اس کتاب کو سینے سے لگائے، ہاتھوں میں لئے ، اسے پڑھنے اور سمجھنے کی تبلیغ فرمایا کرتے تھے۔محترم قارئین آپ بھی اس کتاب بارے کچھ جان لیجئے۔ مسلم لیگ نون کے پچھلے دور میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان محترم ممنون حسین صاحب کے زمانے میں ایک سیمینار "میثاق مدینہ" کے عنوان سے منعقد ہوا ۔ شاید یہ وہی دور تھا جس میں محترم نواز شریف کو امیرالمومنین بننے کا بڑا شوق چڑھا ہوا تھا۔ بقول استاد محترم کے اس سیمینار میں پورے پاکستان سے جید علماء و دانشور حضرات نے شرکت کی ۔ سیمینار کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میثاق مدینہ کی روشنی میں پاکستانی معاشرے کی تشکیل نو کی طرف قدم بڑھانا بتایا گیا تھا۔ بقول استادِ محترم! موجودہ صدر عارف علوی صاحب کی صدارت میں دوبارہ اس کتاب کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچایا گیا اور ادارہ تحقیقات اسلامی نے اسے چھاپا۔استاد محترم کے بقول اس کتاب کے مسودے پر اٹھارہ سو علمائے کرام نے دستخط کئے۔ اس میں ہمارے سرور جناب بخاری (استاد کا نمائندہ) صاحب بھی پیش پیش تھے۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر 16 پر لکھا ہوا ہے کہ "پاکستان کے بعض دشمن عناصر معصوم بچوں کو اس نعرے س ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 28 تاريخ : دوشنبه 30 بهمن 1402 ساعت: 14:30

ایرانی اقدامات  اور تجزیہ کاری | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات ایرانی اقدامات اور تجزیہ کاریایم اے راجپوت18 جنوری 2024 بروز جمعرات پاکستان نے ایران کے خلاف جوابی کاروائی کی۔یہ کاروائی کرنی چاہئے تھی یا نہیں ؟پاکستان نے خود کی یا کسی نے کرائی؟فی الحال ان سوالات کے جوابات سے بحث کرنا مقصود نہیں۔اس تحریر کا اصل موضوع اس کاروائی کے بعد بعض پاکستانی تجزیہ نگاروں اور صحافی حضرات کے وہ تجزیہ جات ہیں جن کو سن کر ہر مسلم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ کیا ایسی باتیں کوئی مسلم بھی کر سکتا ہے؟مثلا بعض تجزیہ نگاروں نے ایران کی جانب سے غاصب و جعلی اسرائیل کے مقابل مظلوم فلسطینیوں ،قبلہ اول بیت المقدس اور طون الاقصی اور غزہ کی حمایت کو ایران کا عیب شمار کیا اور مشرق وسطی میں ایران کی جانب سے اسے شرارت کہا جبکہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران ملت فلسطین کی پشت پر نہ ہوتا تو آج باقی ماندہ فلسطین بھی غاصب اسرائیل کے قبضے میں جا چکا ہوتا۔اسی طرح بعض تجزیہ نگاروں نے ایران کی جانب سے داعش اور اس کے سرپرستوں کے مقابل عراق اور شام کی غیور، مسلم ومومن عوام کی حمایت پر منفی ریمارکس دئیے جبکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر ایران ان دوملکوں کی مدد کو نہ پہنچتا تو داعش کے توسط سے دونوں ملکوں کے شیعہ سنی مسلمان ذبح ہو چکے ہوتے اور عالمی دہشت گرد امریکہ دونوں ملکوں کی سرزمین کو ٹکڑے ٹکڑے کر چکا ہوتا۔دشمن اسلام امریکہ اور داعش کو ناکام بنانے والا ایران ہی تھا ۔پھر بعض تجزیہ نگار ایران کی جانب سے حزب اللہ لبنان ،انصار اللہ یمن اور حماس جیسی غیور تنظیموں کی حمایت پر تنقید کرتے ہوئے اور اسے ایران کا ایک ویک پوائنٹ شمار کرتے ہوئے سنے گئے۔گویا ان تجزیہ نگاروں کے نزدیک عالمی دہشت گرد امریکہ ،غاصب ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 33 تاريخ : يکشنبه 1 بهمن 1402 ساعت: 23:01