جمہوریت کی خامیاں

ساخت وبلاگ

دائرہ

سلسلہ ۱۱

جمہوریت کی خامیاں

نذر حافی

تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہیے،   جمہوریت کے بھی دورخ ہیں، کچھ اس کی خوبیاں ہیں اور کچھ خامیاں۔

عوام کی سیاسی تربیت اور شعور میں اضافے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو  خوبیوں اور خامیوں دونوں کا پتہ ہو۔ خوبیاں بتانے کا یہ فائدہ ہے کہ عوام انہیں اپناتے ہیں اور خامیاں بتانے کا یہ مقصد ہے کہ عوام پہلے سے ہی بچاو کی تدبیر کریں۔

درج زیل میں جمہوریت کی اہم خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے:

۱۔ دھوکہ دہی

جمہوری نظام میں عوام کے ساتھ دھوکہ کیا جاتاہے، سیایس پارٹیاں اور لیڈر  لوگوں سے ووٹ لینے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں اور ایوان اقتدار میں بیٹھ کر مزے اڑاتے ہیں۔ ہمیشہ جب ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو  سیاسی پارٹیاں اور لیڈر لوگوں کے گھر گھر پہنچتے ہیں لیکن اس کے بعد گم ہو جاتے ہیں۔

۲۔ انتشار و اختلاف

سیاسی پارٹیاں اور لیڈر  ووٹ لینے  کے لئے  لوگوں کے مسلک، دینی عقائد، قوم ، قبیلے ، زبان  اور علاقائی تعصبات کو بڑھکاتے ہیں۔مختلف جوشیلے نعروں، شعلہ بیان تقریروں ، طرح طرح کی  بینروں اور پوسٹروں سے لوگوں کو بڑھکایا جاتا ہے۔  لوگوں میں تعصبات کو اس حد تک ہوا دی جاتی ہے کہ  بعض اوقات ایک ہی عقیدے، مسلک ، گاوں اور محلےکے لوگ بھی آپس میں قطع تعلق کر لیتے ہیں ۔ الیکشن ہوتے ہوتے بعض جگہوں پر خون خرانہ اور طلاقیں بھی ہو جاتی ہیں۔

۳۔ نااہل قیادت

جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ جن مقاصد کے لئے لوگوں سے ووٹ لئے جاتے ہیں وہ اکثر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ان میں سے ایک اہم مقصد باصلاحیت قیادت کا حصول ہے۔ اکثر لوگوں کے جوش و ولولے سے فائدہ اٹھا کر نااہل لوگ حکومت میں آتے ہیں اور لوگ بعد میں پچھتاتے رہتے ہیں۔  جمورہ سسٹم میں پڑھے لکھے، شریف اور اہل الوگوں کا  اقتدار میں آنا مشکل ہوتا ہے۔ چونکہ عوام کسی کی تعلیم و اخلاق کے بجائے نعروں ، تقریروں اور وعدوں سے متاثر ہوکر ووٹ دیتے ہیں۔  عموما جو جتنی جوشیلی تقریر کرے، زیادہ جھوٹ بولے  اور لوگوں سے بڑے بڑے وعدے کرے لوگ اسی کو منتخب کرتے ہیں۔

۴۔عدم استحکام اور کرپشن

سیاسی پارٹیوں کے ذریعے جو لوگ حکومت میں آتے ہیں، ان کے پاس اکیڈمک تجربہ نہیں ہوتا، انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اب ہمیں کیا کام کرنا ہے، چنانچہ وہ اپنے ماتحتوں سے ہی ڈرتے رہتے ہیں۔ بیورو کریسی کو ان لیڈروں کی خامیوں کا پہلے ہی پتہ ہوتا ہے لہذا  سرکاری محکموں میں کرپشن اور رشوت  کا دور دورہ رہتا ہے ۔

انہیں خود بھی جب کوئی کام کروانا ہوتا ہے تو  ڈر کے مارے اور اپنی عزت بچانے کے لئے  یہ رشوت دے کر ہی کام  کرواتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی ان کے ماتحت بھی رشوت لئے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ چنانچہ جمہوری حکومتوں میں کرپشن مسلسل بڑھتی رہتی ہے ۔

۵۔اکثریت کی دھاک

الیکشن کے بعد ہر علاقے میں انسانی اقدار کے بجائے ، اکثریت کا رعب بیٹھ جاتا ہے۔ عموما  جیتنے والی پارٹی کے لوگ ہی حکومتی پوسٹوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور  باقی لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔

۶۔ بے شعور لوگوں کی طاقت میں اضافہ

جمہوری نظام میں باشعور اور بے شعور میں کوئی فرق نہیں ہوتا ، دونوں نے ایک ، ایک ووٹ ہی دینا ہوتا ہے،   معاشرے میں مجموعی طور پر بے شعور لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ، چنانچہ جو منتخب ہوتا ہے وہ بے شعور لوگوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔

مثلا ایک جگہ پر پانچ گھڑیاں موجود ہوں اور ان میں سے چار گھڑیاں غلط ٹائم بتائیں اور ایک گھڑی ٹھیک ٹائم بتائے تو جمہوریت میں اس ایک گھڑی کی کوئی اہمیت نہیں جو ٹھیک ٹائم بتاتی ہے بلکہ ان چار گھڑیوں کی اہمیت ہے جو غلط ٹائم بتاتی ہیں چونکہ اکثریت معیار ہے۔

۷۔سیاسی تربیت کا نہ ہونا

جمہوری نظام میں سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کو عوام کی سیاسی تربیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، ان کا سارا زور مدمقابل کی خامیاں بیان کرنے اور اسے زچ کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ لوگوں کو  سیاست سکھانے اور انہیں سیاسی شعور دینے  کے بجائے مختلف پارٹیوں اور لیڈروں کے عیوب اور نقائص یاد کروائے جاتے ہیں۔

الیکشن کے دن بعض لوگ چھٹی مناتے ہیں اور بعض ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں، نہ عوام کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے  کہ وہ یہ جانیں  سیاست کیا ہے اور سیاسی مسائل کیا ہیں اور نہ ہی سیاستدانوں کو اس سے دلچسبی ہوتی ہے کہ وہ عوام کی سیاسی تربیت کریں۔

۸۔ اداروں کی بدنامی

 نااہل اور کرپٹ لوگوں کے برسر اقتدار آنے کی وجہ سے ملک میں جرائم، دہشت گردی اور کرپشن  میں بے پناہ اضافے کے ساتھ ساتھ مہنگائی، بے روزگاری اور لوڈ شیدنگ جیسے مسائل  بے قابو ہو جاتے ہیں۔ سیاستدان چونکہ مسائل کو حل کرنے کی مہارتوں سے آشنا نہیں ہوتے تو اس طرح  سرکاری ادارے بدنام ہونے لگتے ہیں ۔

بعض جگہوں پر خود نااہل سیاستدان بھی کرپشن اور دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں ، اور اس کا ملبہ بھی  سرکاری اداروں کے اوپر گرایا جاتا ہے۔

تازہ ترین واقعات میں سے مثال کے طور پر مشال خان قتل کیس کو لیجئے ، اس کا مرکزی  مجرم خود ایک سیاسی پارٹی کا ذمہ دار شخص ہے، لیکن اس واقعے سے یونیورسٹی، پولیس اور فوج سب بدنام ہوئے کہ یہ سارے ادارے ایک بے گناہ انسان پر ہونے والے تشددر کو نہیں روک سکے۔

اکثر جگہوں پر سیاسی پارٹیوں کے جیالے اسی طرح کے کارنامے انجام دیتے ہیں  لیکن بدنام فوج اور پولیس کو کیا جاتا ہے۔ جیالوں کی کارروائی کے بعد سیاسی پارٹیوں کی ہائی کمان اس واقعے کی مذمت کر کے  بے شعور عوام کے سامنے عدل و انصاف کے نعرے لگاتی ہے ، مقتول کو انصاف دلانے کے بیانات دئیے جاتے ہیں اور عوام کو پھر سے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح بعض مقامات پر سیاسی مخالفین کو مخفیانہ طور پر یا پھر کسی بھی دوسرے طریقے سے قتل کروا کر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ    یا روڈ ایکسیڈنٹ یا ڈاکووں کی کارروائی کالیبل لگا دیا جاتا ہے، جس کے بعد  پولیس اور فوج نیز سیکورٹی اداروں کی غفلت کا رونا بھی رویا جاتاہے۔

 


موضوعات مرتبط: نذر حافی ، Top News ، شعور
ٹیگز: جمہوریت کی خامیاں ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 251 تاريخ : دوشنبه 15 خرداد 1396 ساعت: 12:37