آزادی کا شعور اور اسلامی دنیا

ساخت وبلاگ

دائرہ

نذر حافی                        

آزادی کو انسان پرزبردستی ٹھونسا نہیں جا سکتا، اسی طرح  آزادی کسی کو زبردستی یا تحفے میں عطا  بھی نہیں کی جاسکتی،  اور نہ ہی  آزادی کو باہر سے کہیں پر  لانچ  کیا جاسکتا ہے۔  آزادی ، عقل و شعور کی  بیداری کے نتیجے کا نام ہے، جب انسان کی فکر بیدار ہوجاتی ہے تو وہ غلامی کی زنجیروں کو  خود بخود توڑنے لگتا ہے۔

غلامی فقط ریاست ، حکومت یا دوسروں کی ہی نہیں ہوتی بلکہ انسان اپنی  ہی انا اور خواہشات نفسانی کا بھی غلام ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ نے جتنے انبیائے کرام ﷺ مبعوث کئے انہوں نے عوام کو ہر طرح کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے ، لوگوں سے خود کش حملے یا ٹارگٹ کلنگ نہیں کروائی بلکہ  لوگوں کی فکروں کو بیدار کیا۔

چونکہ اگر کسی کی فکر بیدار نہ ہو تو اس کے لئے غلامی اور آزادی  میں کوئی فرق نہیں۔سویا ہوا شخص اگر نیند میں ساری رات آزادی، آزادی کے نعرے لگاتا رہے تو صبح تک وہ تھک تو جائے گا لیکن اسے حاصل کچھ نہیں ہوگا۔  پس حقیقی  آزادی کے لئے پہلی شرط  حقیقی بیداری ہے۔

جس طرح بہت سارے لوگ نیند میں چلنے  اور باتیں کرنےکے عادی ہوتے ہیں ، اسی طرح ممکن ہے کوئی شخص آزادی کے راستے پر چل تو رہاہواور آزادی کی باتیں بھی کرتا ہو لیکن درحقیقت سویا ہوا ہو۔ یعنی فقط آزادی کی کانفرنسیں منعقد کرنا، نعرے لگانا اور  تقریریں کرنا کافی نہیں ہے بلکہ فہم و فراست، مطالعات و تحقیقات  اور سوجھ بوجھ کے ساتھ آزادی کی شاہراہ کو منتخب کرنا ضروری ہے۔

صدرِ اسلام کے مسلمانوں نے سب سے پہلے ہر طرح کی غلامی سے آزادی حاصل کی۔صدر اسلام میں مسلمانوں نے جو آزادی حاصل کی تھی اس کی مندرجہ زیل خصوصیات تھیں:

۱۔ قومی آزادی

قومی آزادی سے مراد یہ ہے کہ مسلمانو ں میں یہ شعور آگیا تھا کہ تمام مسلمان ایک قوم ہیں ، اور مسلمان قوم کسی کی بھی غلام نہیں ہے۔

۲۔ انسانی مساوات

صدر اسلام کے مسلمانوں کی آزادی، اپنے ہمراہ انسانی مساوات کو لئے ہوئے تھی، وہاں پر کالے اور گورے، عربی و عجمی، حبشی اور قریشی کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان بے مثال اخوت اور بھائی چارہ پایا جاتا تھا۔

۳۔ تعلیم و تربیت  کی آزادی

صدر اسلام میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام تھا اور اصحاب صفہ کی صورت میں علم حاصل کرنے والوں کی جماعت موجود تھی۔تشنگان علم ، بغیر کسی  فیس، فرق اور تمیز کے علوم نبویﷺ سے سیراب ہو سکتے تھے۔

یہ آج ہمارے ہاں نظام تعلیم بھی طبقاتی سسٹم میں تقسیم ہو چکا ہے  اور غریب آدمی اپنے بچوں کو معیاری تعلیم نہیں دلا سکتا ۔ یہ صورتحال اسلامی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ ایک اسلامی ریاست کے باشندوں کو بغیر کسی فیس اور سفارش کے معیاری تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

۴۔ معاشی آزادی

مسلمان بن کر لوگوں کو جو آزادی ملتی تھی اس میں ایک عنصر معاشی آزادی کا بھی تھا، اسلام میں کسی پیشے کو کسی پر کوئی فقیت نہیں ہے۔ کسب معاش کے اعتبار سے تمام لوگ آپس میں برابر ہیں اور کوئی بھی کمی یا گھٹیا نہیں ہے۔لہذا مسلمان ہونے کے بعد کوئی بھی انسان فخر کے ساتھ کسی بھی پیشے کو اختیار کر کے باعزت زندگی گزار سکتا تھا۔

۵۔ شہری آزادی

مدینے میں مسلمانوں کی آزاد ریاست میں تمام شہری زندگی گزارنے میں آزاد تھے اور کسی بھی دین سے تعلق رکھنے والے شہری کو دینی تعصب کی بنا پر کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

۶۔ آزاد عدلیہ

صدر اسلام میں عدلیہ بھی مکمل آزاد ہوتی تھی ، حتی کہ ضرورت پڑنے پر خلفائے راشدین کو بھی عام شہریوں کی طرح طلب کر کے بازپرس کی جاتی تھی۔

۷۔ آزادی رائے

مسلمان ہونے کے بعد ہر شخص کو مکمل سیاسی حقوق حاصل ہوجاتے تھے ، وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرسکتا تھا، خلفا کا احتساب ایک عام سی بات تھی، ارباب مطالعہ جانتے ہیں کہ سقیفہ بنی سعدہ میں جب خلیفہ اوّل کے انتخاب کا مسئلہ پیش آیا تو تاریخ اسلام کی سخت ترین تنقید اور بحث وہاں ہوئی۔ وہاں پر سب صحابہ کرام نے مجادلے اور بحث کے بعد ایک نتیجہ نکالا ، اتنی شدید باہمی مخالفت کے باوجود کسی نے ایک دوسرے کو کافر یا دین سے خارج نہیں کہا۔

اس برداشت اور حوصلے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور کے مسلمان یہ شعو رکھتے تھے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں اور قومی و سیاسی مسائل میں  ہر فرد کو آزادانہ رائے دینے کا پورا حق حاصل ہے۔  

اسی طرح لوگ مختلف اجتماعات میں اٹھ کر خلیفہ دوم پر بھی تنقید کرتے تھے اور کبھی بھی تنقید کرنے والے کو کافر، منافق یا گمراہ  نہیں کہا گیا بلکہ ناقد کو مطمئن کرنے کے لئے احسن طریقے سے جواب دیا جاتا تھا۔

بعد ازاں    خلیفہ سوم کے زمانے میں حضرت ابوز غفاری ؒ سخت نقد کرتے تھے،  کبھی کسی نے نعوز باللہ یہ نہیں کہا کہ آپ کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آزادی رائے کے بہترین نمونے خلافت راشدہ  کے عہدمیں دیکھے جا سکتے ہیں۔

۸۔ قانون کی پابندی

آزادی کے برقرار رہنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمان، الٰہی قانون یعنی قرآن و سنت کی پابندی کریں، حتی کہ خلیفہ کو بھی استثنا حاصل نہیں۔  یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اوّل نے اپنے پہلے خطبے میں ہی کہا تھا کہ  اے لوگو ! میں تمہارا امیر بنا دیا گیا ہوں، میری اطاعت تم پر اس وقت تک لازم ہے جب تک میں خدا اور اس کے رسولﷺ کی بتائی ہوئی راہ پر چلوں۔

آج جب کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمانوں کا خلیفہ کہنے کے بعد اسرائیل اور امریکہ کی دوستی کے گن گاتا ہے  اور مسٹر ٹرمپ کے ساتھ رقص کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں نے  اسلامی آزادی اور خلافت کے سنہرے اصولوں  کو فراموش کر دیا ہے۔

اگر مسلمان حاکم، قرآن و سنت کی پابندی نہ کرے تو وہ خلفائے بنو امیہ اور بنو عباس کی طرح نام کا تو خلیفہ ہے لیکن اسلام کا خلیفہ نہیں ہے۔

آج اسلامی دنیا میں یہ جو خلفشار، دوریاں، اسلحے کی دوڑ، جنگ کے خطرات  اور  کفر سے قربت اور مسلمانوں سے فاصلے ہیں وہ اس وجہ سے ہیں کہ مسلمانوں نے اسلامی آزادی کے شعور کو بھلاکر بادشاہوں اور حکمرانوں کی غلامی شروع کردی ہے۔

آج کے مسلمان کو  اسلامی آزادی کا شعور ہی نہیں ، اسے معلوم نہیں کہ اسلامی ریاست میں آزادی کیا خصوصیات ہیں۔ جب تک مسلمانوں کو اسلامی آزادی کا شعور نہیں مل جاتا  اور ان کی عقل بیدار نہیں ہو جاتی اس وقت مسلمان  امریکہ، اسرائیل اور کرپٹ حکمرانوں کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکتے چونکہ  آزادی کو انسان پرزبردستی ٹھونسا نہیں جا سکتا، اسی طرح  آزادی کسی کو زبردستی یا تحفے میں  بھی عطا نہیں کی جاسکتی۔   آزادی ، عقل و شعور کی  بیداری کے نتیجے کا نام ہے، جب انسان کی فکر بیدار ہوجاتی ہے تو وہ غلامی کی زنجیروں کو  خود بخود توڑنے لگتا ہے۔

 

 


موضوعات مرتبط: نذر حافی ، Top News ، شعور
ٹیگز: آزادی کا شعور اور اسلامی دنیا ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 255 تاريخ : دوشنبه 15 خرداد 1396 ساعت: 12:37