اپنی تاریخ سے کچھ تو سبق سیکھئے

ساخت وبلاگ

اپنی تاریخ سے  کچھ تو سبق سیکھئے

 

تعصب کسی بھی طرح کا ہو، انسان کی تنگ نظری اور کم عقلی پر دلالت کرتا ہے۔ جس طرح مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصب مذموم ہے ، اسی طرح فوجی  اور سول کا تعصب بھی قبیح ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ ایسے  بھی ہیں جو غلط اور صحیح کو نہیں دیکھتے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کی وردی پہن کر جو کچھ کیا جائے اسے غلط نہیں کہا جا سکتا۔ جبکہ حقیقت یہ ے کہ فوج کی وردی کا تقدس اور وردی پہننے والے کی ذات دو الگ چیزیں ہیں۔  جو آدمی فوج کی مقدس وردی پہن کر اس کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے تو بلاشبہ وہ ہماری ملت کا ہیرو ہے لیکن اگر کوئی فوج کی مقدس وردی پہن کر اس وردی کے تقدس کو پامال کرتا ہے تو ہمیں اس غلط شخص کو غلط کہنا چاہیے تاکہ لوگوں کو سمجھ آئے کہ مقدس وردی کے اندر ایک غیر مقدس شخص چھپا ہوا ہے۔

غلط لوگ کسی بھی وردی اور لباس میں ہوں، وہ چاہے علما کے لباس میں ہوں، صحافت کی چھتری کے تلے ہوں، پولیس  یا فوج کی وردی میں ہوں یا سیاستدانوں کے روپ میں ہوں ، ہمیں غلط کو غلط کہنے کی عادت ڈالنی ہو گی۔  آئیے روزنامہ نوائے وقت کے معروف کالم نگار  قیوم نظامی کا کالم پڑھتے ہیں اور تعصب سے ہٹ کر اچھے اور برے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ نوائے وقت

کالم نگار قیوم نظامی

پاکستان کے یوم سیاہ 5جولائی 1977ء کے بارے میں کالم لکھنے کا ارادہ کیا تو اعجاز الحق کے ساتھ انکے گھر راولپنڈی میں ہونیوالی ملاقات یاد آگئی۔ اعجاز الحق میرے سیاسی پس منظر سے واقف تھے انہوں نے بڑے خلوص اور محبت کا مظاہرہ کیا اور اعتماد میں لیتے ہوئے پاکستانی سیاست اور صحافت کے کچھ چہروں کے بارے میں چشم کشا باتیں بتائیں جو امانت ہیں۔ یہ کالم کسی تعصب کے بغیر پاکستان کے ساتھ لازوال محبت کے جذبے سے لکھا جارہا ہے ہرگز کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ہے۔ حق گو جنرل فیض علی چشتی کی رائے کے مطابق امریکی سی آئی اے نے جنرل ضیاء الحق کی تربیت کی تھی اسی تربیت کی بدولت وہ عالمی معیار کے لیڈر بھٹو صاحب کو رام کرکے پاکستان کے آرمی چیف بن گئے حالانکہ سنیارٹی لسٹ پر ان کا نام ناویں نمبر پر تھا۔ وہ ملتان میں کور کمانڈر تھے بھٹو صاحب جب ملتان جاتے تو جنرل ضیاء الحق بذات خود ان کی سکیورٹی ڈیوٹی دیتے۔ بھٹو صاحب پوچھتے جنرل صاحب آپ یہ تکلیف کیوں کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کہتے ’’سر آپ کی جان پاکستان کیلئے بہت قیمتی ہے‘‘۔ بھٹو صاحب خوشامد پسند تھے اور جنرل ضیاء الحق کو اس فن پر عبور حاصل تھا۔ ایک بار قرآن ہاتھ میں لے کر بھٹو صاحب کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے ’’سر میں آپ کا وفادار رہوں گا‘‘۔ آرمی چیف بننے کے بعد بھی جنرل ضیاء الحق وزیراعظم بھٹو کی خوشامد کرتے رہے ان کو عشائیے کی پرتکلف دعوت دی۔ فوجی افسروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیگمات کے ہمراہ عشائیے میں شرکت کریں۔ اس موقع پر جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم بھٹو کی شان میں یادگار قصیدہ پڑھا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
جنرل ضیاء الحق ایک دن وزیراعظم ہائوس میں بھٹو صاحب سے ملاقات کیلئے انتظار کررہے تھے کہ بھٹو صاحب اچانک اپنے آفس سے باہر نکلے جنرل ضیاء الحق نے ان کو دیکھ کر سلگتا سگار اپنی یونیفارم کی جیب میں ڈال لیا۔ بھٹو صاحب نے کہا ’’جنرل آپ پاک فوج کو جلارہے ہیں‘‘۔ مؤرخ متفق ہیں کہ پی این اے اور پی پی پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا تھا اور ڈیڈ لاک ختم ہوگیا تھا ۔ نئے انتخابات کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کی رات شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ قابل اعتبار شخصیت ایس ایم ظفر نے اپنی ذاتی ملاقاتوں کے حوالے سے بتایا کہ جنرل ضیاء الحق کافی عرصے سے اقتدار کے خواب دیکھ رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے قوم سے نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کا وعدہ کیا جو انہوں نے توڑ دیا۔ جنرل ضیاء الحق نماز پڑھتے تھے اور عجز و انکساری ان کا شیوہ تھا ملاقات کرنیوالوں کو ان کی کار تک آکر رخصت کرتے یہ ان کا ذاتی کردار تھا مگر حکمران کی شخصیت کا تجزیہ اسکے اجتماعی کردار کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ طویل آمرانہ دور پاکستان کی تباہی اور بربادی کا سبب بنا۔ جنرل ضیاء الحق نے جہادی کلچر کی جو زہریلی فصل کاشت کی تھی اسے جنرل راحیل شریف اپنا سرہتھیلی پر رکھ کر کاٹ رہے ہیں۔ اب تک اسی ہزار سویلین اور فوجی جہادی کلچر سے پیدا ہونیوالی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار کے نشے میں پاکستان کے مستقبل کو ہی دائو پر لگادیا۔ عالمی شہرت یافتہ مؤرخ E-Girabdet لکھتے ہیں ’’ضیاء الحق اگر دوربین ہوتے تو سوچتے کہ روس کی ناکامی کے بعد امریکہ عالم اسلام کو دبانے کی کوشش کریگا اور عالمی نظام کا توازن ہی بگڑ جائیگا۔ آئی ایس آئی نے امریکی ڈالر اور اسلحہ مجاہدین کے گروپوں میں تقسیم کیا۔ فوج کے جرنیل خود بھی امریکی ڈالروں سے فیض یاب ہوئے‘‘۔[افغانستان: سوویٹ وار صفحہ67]
پی این اے کے لیڈروں نے ’’نظام مصطفی‘‘ کے نام پر تحریک چلائی مگر مارشل لاء کے نفاذ کے بعد آمر کی کابینہ میں شامل ہوگئے۔ اس تحریک کے سرگرم کارکن اہلحدیث جماعت کے پاک دل پاک باز سکالر و رہنما میاں محمد جمیل تسلیم کرتے ہیں کہ پی این اے کے کئی لیڈروں نے اسلام کے نام پر سیاسی مفادات حاصل کرلیے۔ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کے آئین اور سیاستدانوں کے بارے میں کہا ’’آئین کیا ہے یہ دس بارہ صفحات کا ایک کتابچہ ہے میں اس کو پھاڑ سکتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ کل سے ہم ایک نئے نظام کیمطابق چلیں گے آج میں عوام کو جس جانب بھی لے چلوں وہ میری پیروی کرینگے۔ ماضی کے طاقت ور بھٹو سمیت تمام سیاستدان میرے پیچھے اپنی دُمیں ہلاتے آئینگے‘‘۔[کیہان انٹرنیشنل تہران بتاریخ 18ستمبر 1978] جب بھٹو صاحب نے آمر کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا تو اس نے پنجابی ججوں کو ساتھ ملاکر ایٹمی صلاحیت کے بانی مقبول عوامی لیڈر اور اپنے محسن کو تختۂ دار پر چڑھادیا۔ جنرل ضیاء الحق کی باقیات اور ’’مارشلائی ورثے‘‘ کی فہرست طویل ہے مختصر یہ کہ آمر کے جہادی کلچر اور ’’سیاسی اسلام‘‘ کی وجہ سے فرقہ وارانہ تنظیمیں سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، تحریک نفاذ، فقہ جعفریہ وجود میں آئیں۔ فرقہ ورانہ مدارس کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے بنیاد پرستی کے جو بیج بوئے ان سے جہادی لشکر انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں القائدہ، طالبان اور داعش وجود میں آئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے ’’سیاسی اسلام‘‘ نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا۔ قائداعظم کی روح خوش ہوگی کہ ان کا وژن اور تصور درست ثابت ہوا کہ مذہب کو سیاست اور ریاستی امور سے الگ رکھا جائے۔
جنرل ضیاء الحق نے لسانی بنیاد پر ایم کیو ایم کھڑی کی شریف برادران کی سیاسی سرپرستی کی اور اپنی عمر بھی میاں نواز شریف کی نذر کردی جنہوں نے سیاست کو تجارت بنا دیا۔ کوڑے، قیدیں، نظربندیاں، جلاوطنیاں، عقوبت خانوں میں تشدد، کلاشنکوف و ہیروئین کلچر، سیاچین پر بھارتی قبضہ، جعلی ریفرنڈم، برادری کی بنیاد پر تقسیم، افغان وار، سیاسی بنیاد پر قرضے اور پرمٹ ، آئی جے آئی کی تشکیل، آدھی عورت کا تصور، انتہا پسندی، نفرت اور عدم برداشت پر مبنی نصاب تعلیم ضیاء دور کے ’’تحفے‘‘ ہیں۔ ایک اور جاہ پرست آمر جنرل پرویز مشرف نے امریکی جنگ کیلئے پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ بنا کر پرائی جنگ کو اپنی جنگ میں تبدیل کردیا۔ آمر جرنیلوں کے اقدامات کی ذمے داری عسکری ادارے پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے نیم دلی کیساتھ یہ جنگ لڑی اور معصوم شہری دہشت گردی کا شکار ہوتے رہے۔ دہشت گرد اس قدر مضبوط اور منظم ہوگئے کہ جی ایچ کیو تک پہنچ گئے۔ پھر قدرت کو پاکستان اور عوام پر رحم آگیا۔ جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی جس کی مادر وطن سے محبت لازوال ہے جسکے جسم کے اندر حلال خون ہے جو زندہ ضمیر ہے اور مال و دولت کا اسیر نہیں ہے۔ ایمان، تنظیم اور یقین محکم اسکے عسکری اُصول ہیں۔ وہ خوشامد پسند اور اقتدار پرست نہیں ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے بے مثال جرأت، محنت اور عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ جنگ جیتی ہے جو برطانیہ، روس، امریکہ اور نیٹو افواج ہارچکے تھے۔ جنرل راحیل شریف نے مایوس قوم کو حوصلہ دیا اور اُمید کے چراغ روشن کیے۔ پاک فوج کے وقار کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ قومی اتفاق رائے ہے کہ جنرل راحیل شریف پاکستان کے عظیم، مقبول اور بے مثال سپہ سالار ثابت ہوئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف چونکہ کرپشن کیخلاف ہیں، شفاف احتساب کے علمبردار ہیں اور گڈ گورنینس کے حامی ہیں اس لیے کرپٹ حکمران اشرافیہ کیلئے قابل قبول نہیں ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ آج کرپٹ حکمران اشرافیہ سے جڑے دانشور اور صحافی جنرل راحیل شریف کی ’’آئینی توسیع‘‘ کی مخالفت کررہے ہیں اور مختلف تاویلات پیش کرتے ہیں انکی آرزو سے کرپٹ حکمران اقتدار پر براجمان رہیں اور محب الوطن دیانتدار جرنیل گھر چلا جائے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ جب جنگ منطقی انجام کی جانب بڑھ رہی ہو سپہ سالار تبدیل نہیں کیا کرتے۔ بقول میجر(ر) خالد نصر:۔
منزل تک وہ کیسے پہنچ پائے گا حضور
جو قافلہ ہے قافلہ سالار کے بغیر
چڑھتے سورج کی طرح ثابت ہوچکاکہ جنرل راحیل شریف ’’خدائی عطیہ‘‘ ہیں ۔ پاکستان قحط الرجال اور قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ اگر تاریخ کے اس نازک اور حساس موقع پر جنرل راحیل شریف چلے گئے تو ریاست کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور سپہ سالار کا اپنا ضمیر بھی ملامت کریگا کہ وہ ذاتی شہرت کیلئے پاکستان کو فیصلہ کن مرحلے پر چھوڑ کرچلے گئے۔ باضمیر عوامی شاعر حبیب جالب نے جنرل ضیاء الحق کے بارے میں ایک نظم میں لکھا تھا۔’’ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا‘‘ آج اگر حبیب جالب زندہ ہوتے تو جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے یادگار نظم ضرور لکھتے۔[1]

 



[1] http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/05-Jul-2016/489115


افکار و نظریات: اپنی تاریخ سے کچھ تو سبق سیکھئے
ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 286 تاريخ : پنجشنبه 1 تير 1396 ساعت: 5:58