ایک کالم ایک تبصرہ

آج نذر حافی صاحب کا کالم پڑھتے ہوئے مجھے اپنا ماضی یاد آگیا۔
✍️
/___سید فصیح کاظمی___/

خصوصا جب کالم ختم ہوا تو میں کافی دیر تک اپنے پرائمری اسکول کے دوستوں اور اساتذہ کو یاد کرتا رہا۔ پوری کلاس میں اکیلا میں ہی شیعہ طالب علم تھا۔ مجھے کوئی سنی شیعہ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتی تھیں۔ صرف اتنا جانتا تھا کہ میرا تعلق ایک شیعہ خاندان سے ہے۔
میرے کلاس فیلوز میں کچھ لڑکے جو ہمارے سکول کے اطراف میں ہی رہتے تھے وہ اہل تشیع کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کے بقول جو مولانا ان کی مسجد کے امام تھے وہ کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک ممبر تھے۔ اکثر وہ لڑکے شیعوں کی تکفیر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم سپاہ صحابہ والوں کا مقصد ہی شیعوں کو ختم کرنا ہے۔ چونکہ بچپن کا دور تھا ہم ایسی باتوں کو زیادہ دل پر نہیں لیتے تھے۔ ایک ساتھ کھیلنا کودنا جاری رہتا تھا۔
ان کے بقول وہ مولوی صاحب شیعوں کے خلاف باقاعدہ ٹریننگ کر کے آئے تھے اور پہلے کسی ادارے میں بھی تھے جہاں وہ شیعہ ہونے کی وجہ سے معصوم لوگوں کو جیل میں ڈالتے تھے۔
ایک لڑکا جو مولوی صاحب کے پاس قرآن پڑھتا تھا مولوی صاحب کی ٹریننگ کے بارے میں کہتا تھا کہ مولوی صاحب خاردار تاروں کو پاؤں کے پنجے اور انگلیوں کے اوپر کھڑے ہو کر کراس کیا کرتے تھے۔
یوں ہی کافر کافر کھیلتے ہم ساتویں کلاس میں پہنچ گئے۔ وہی مولوی صاحب جس کے بارے میں یہ سب باتیں ہم نے سن رکھی تھیں ہمارے استاد کی شکل میں ہمارے سرکاری سکول میں اسلامیات پڑھانے آنے لگے۔ ہمارے سکول میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے مولوی صاحب کو بلایا جاتا تھا۔ سکول کا موجودہ سینئیر اسٹاف ہی ان کا ہم مسلک تھا لہذا وہ مولوی صاحب اسلامیات کم اور شیعہ کی کفریات دبے لفظوں میں زیادہ پڑھاتے تھے۔
آہستہ آہستہ کفریات کا دائرہ بڑھتا گیا اور ہماری شکایات بھی ۔ ۔۔
اس کلاس کے دوران ہمارے دل و دماغ پر جو زخم لگے تھے وہ اس کالم نے پھر سے تازہ کر دئیے۔

یاد ماضی عذاب جاں ہے یا رب۔۔۔
نذر حافی صاحب کا کالم آپ بھی پڑھ کر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ یہ کالم حقیقت سے کتنا قریب یا دور ہے ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...

ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 6 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04