مولوی منظور مینگل

ساخت وبلاگ

مولوی منظور مینگل

نذر حافی

اگر قادیانی برادری، مسلمان فرقوں کے خلاف مقامِ ختمِ نبوّت اور تاجدارِ ختمِ نبوّت ؐ کی توہین کرنے کی ایف آئی آرز درج کرانی شروع کردے تو کیا آپ اسے سازش نہیں کہیں گے؟ ہمارے ہاں توہینِ مذہب اور مذہبی گستاخی جیسے نعرے لگا کر بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا اور ان پر ایف آئی آرز درج کرانا معمول بن چکا ہے۔ آج کل پورے ملک میں جگہ جگہ ایف آئی آرز کٹوائی جا رہی ہیں۔


گزشتہ دنوں ایک ایف آئی آر مولانا منظور مینگل صاحب کے خلاف بھی درج ہوئی۔ توبہ توبہ یہ بھی کیسا زمانہ آگیا ہے!۔


ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ مولوی منظور مینگل صاحب ہوں یا کوئی بھی دوسرا شخص، سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ ایف آئی آر درج کرانے والا خود تو کہیں مکّار، سازشی، گستاخ اور بدنیّت تو نہیں!؟۔

اس کیلئے ایک معیار طے کیا جانا چاہیئے کہ توہینِ مذہب کی ایف آئی آر کون درج کرا سکتا ہے؟ شیخ الحدیث حضرت مولوی منظور مینگل صاحب پر ایف آئی آر اُن کی ایک تازہ تقریر کی وجہ سے کٹی۔ انہوں نے اپنی گزشتہ تقریر میں جو کہا ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔

یاد رہے کہ یہ اُن کی یا اُن کے ہم مکتب افراد کی ایسی کوئی پہلی یا آخری تقریر نہیں۔ اس تقریر میں ایک فرقے اور اس کے اکابرین کی توہین نیز ایک ہمسایہ ملک کیلئے دھمکی نمایاں تھی۔ گالی گولی اور توہین و دھمکی کا یہ سب ایک سلسلہ ہے جو ہمارے ملک میں مسلسل اور نسل در نسل ہے۔ بعض اہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ سب ویسے ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ گستاخیاں، گالی گلوچ، تہمتیں لگانا ، اہانت و توہین اور لڑاؤ، جلاؤ، گھیراؤ، جتھوں کی سیاست، برادر کُشی کی روایت، ٹارگٹ کلنگ، خون خرابے، بلیک میلنگ، افراتفری اور مذہبی شدّت پسندی جیسے عناصر کو استعمال کرکے سرکاری اداروں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس، اسمبلی ممبران اور قومی خزانے سے اپنے نیٹ ورکس نیز دینی مدارس کیلئے بھاری مراعات اور بڑی بڑی گرانٹس وصول کرنے کیلئے ضروری ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کے نیٹ ورکس اور مدرسوں کا بجٹ بھی نہیں ملتا۔

اس طریقہ واردات کے مطابق بعض گروہ دوسروں کے جذبات اسی لئے مجروح کرتے ہیں تاکہ لوگ مشتعل ہوں اور حالات میں کشیدگی لاکر سرکار سے کوئی نئی گرانٹ وصول کی جائے۔ بظاہر یہ بلیک میلنگ "ایک مذہبی رنگ اور شکل و صورت" اختیار کرچکی ہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ ان کے خلاف کارروائی کیا ہونی ہے یہ خود ہی کسی نہ کسی بے گناہ پر توہینِ مذہب کا الزام لگاتے ہیں، پھر خود ہی قاضی اور خود ہی گواہ بن کر اُس کا کام تمام کر دیتے ہیں۔ ماحول میں کشیدگی اور تناؤ ایجاد کرنے کیلئے حسبِ ضرورت اسی طرح دوسروں پر ایف آئی آرز بھی درج کراتے رہتے ہیں۔ اس تجزیے کی روشنی میں مولوی منظور مینگل صاحب کی گزشتہ شہرہ آفاق تقریر کو از سرِ نو سُن اور دیکھ لیجئے۔ اس میں سوائے دوسروں کے جذبات مجروح کرنے کے کوئی اور چیز نہیں۔

یہ تقریر واضح کرتی ہے کہ اب دوسروں کے جذبات کو مجروح کرکے اور انہیں گالیاں دے کر "جہاں کہیں سے بھی" جو گرانٹ حاصل کی جاتی تھی وہ گرانٹ اب کم پڑ چکی ہے۔ اب ایسے لوگوں کے دینی مدارس کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور کرائے کے قاتل پالنے والے ادارے بھی ضرورت سے زیادہ وجود میں آگئے ہیں۔


چنانچہ مولوی منظور مینگل صاحب نے گرانٹ حاصل کرنے کیلئے دو کام اضافی کئے۔


ایک تو ایک فرقے کی توہین کے ساتھ انہوں نے اس فرقے کے اکابرین پر ناروا تہمتیں لگائیں، ورنہ پہلے صرف کسی فرقے پر تنقید اور اعتراض کرنے کا رُجحان تھا۔ اب انہوں نے ایک تو کسی فرقے کے زندہ اور موجودہ اکابرین پر تہمتیں لگائیں اور دوسرے ایک ہمسایہ ملک کے اندر لوگوں کو ٹریننگ دے کر بھیجنے کا اعتراف کیا۔ اربابِ فہم و فراست کے نزدیک یہ سب نپے تُلے جملے تھے۔

مقصد صاف ظاہر ہے کہ گرانٹ حاصل کرنے کیلئے اگر کسی کی توہین اور اس کے اکابرین کی اہانت سے کچھ نہ ملا تو ایک ہمسایہ ملک میں لوگوں کو ٹریننگ دے کر بھیجنے کا اعتراف ملکی اداروں کو ہلا کر رکھ دے گا۔

ایسے ہی موقعوں پر کہتے ہیں کہ ایک مفاد پرست انسان گوشت کی ایک بوٹی کیلئے دوسرے کی بھینس مار دیتا ہے۔ مولوی صاحب نے اپنی گرانٹ کیلئے سارے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔

بھینس مارنے کے بعد گوشت کی کتنی بڑی بوٹی مولوی صاحب کو ملے گی یہ بحث اس وقت ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ چونکہ ہم نہیں جانتے کہ ایسے بیانات کے بعد بوٹی ملتی ہے یا ہڈی۔ بہرحال کچھ نہ کچھ تو ملتا ہی ہوگا۔ اس وقت ہم تو معترضین کا اصلی دکھ بیان کرنا چاہتے ہیں۔

مولوی صاحب پر اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک کافر اور مشرک سے بڑی گالی کوئی نہیں ہو سکتی۔ مولوی منظور مینگل کے مکتب کے اکابرین و عام لوگ بھی ہمارے نبی ؐ کو نعوذباللہ اپنے جیسا غلیظ اور گھٹیا انسان کہتے ہیں، وہ ہمارے نبی ؐ کے والدین اور آبا و اجداد کو بھی معاذاللہ اپنے والدین اور اباواجداد کی طرح کافر و مشرک کہتے ہیں، انہوں نے بانی پاکستان کو بھی کافرِ اعظم کہا اور پاکستان کو کافرستان کہا نیز پاکستان کی پاک فوج کو ناپاک فوج کہنا ان کے مشن کا حصّہ ہے اور پاک فوج سے بغض اور کینہ ان کے مکتب کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر موجود ہے۔

یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ جب کافر و مشرک جیسی گالیاں حضورِ اکؐرم کے والدین، اولیائے کرام، بانی پاکستان، پاکستان اور پاکستان کی پاک فوج کو دی جاتی ہیں تو اس سے سارے جہانِ اسلام اور محبِّ وطن پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اب پاکستانیوں کے پاس برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔

یوں تو دنیا میں بہت سارے بدبخت لوگ ہمارے نبی ؐ کی شان میں گستاخیاں وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں لیکن وہ نبیؐ کی ذات سے آگے نہیں بڑھتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں صرف مولوی منظور مینگل اور ان کا گروہ ایسا ہے جو ہمارے نبی ؐ کو اپنے جیسا کہہ کر نبی ؐ کی شان میں بھی گستاخی کرتا ہے اور نبی ؐ کی ذات سے تجاوز کرکے کافر اور مشرک جیسی گالیاں نعوذباللہ نبی اکرمؐ کے والدین، اولیائے کرام اور دوسرے مسلمانوں کو بھی دیتا ہے۔

نبی ؐاکرم، ان کے والدین کریمین، اولیائے کرام اور دیگر مسلمانوں کو دی جانے والی یہ گالیاں مولوی مینگل صاحب کے فرقے کی کتابوں، ویب سائٹس، تقریروں نیز فتاوی میں موجود ہیں۔

معترضین کا دعویٰ ہے کہ مولوی مینگل اور ان کے فرقے کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی للکار، مار دھاڑ، لوگوں کو اُکسانے، خون خرابے اور ہمسایہ ممالک کے خلاف ہرزہ سرائی سے آگے چل کر پاکستان کے ساتھ کیا ہوگا۔ انہیں پاکستان کی کوئی فکر ہی نہیں۔ ان کیلئے پاکستان، ہندوستان، ایران اور چین یہ سب بلادِ کُفر ہے۔


یہی تو وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے قیامِ پاکستان کیلئے ایک گولی نہ کھائی اور نہ چلائی۔


انہوں نے تو پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافرِ اعظم کہا۔ مولوی منظور مینگل کے فرقے کے مطابق پاکستان کا بنانا ایک گناہ تھا اور یہ لوگ قیامِ پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی مخالفت کیلئے کانگرس کے اتحادی بنے رہے۔

بہرحال مولوی مینگل صاحب پر معترضین کے اعتراضات تو بہت زیادہ ہیں لیکن راہِ حل یہ ہے کہ اگر کسی کو اس ملک کی سالمیت عزیز ہے تو اُسے یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ لوگ ہمیشہ پاکستان کو کسی نہ کسی سے ٹکرانا چاہتے ہیں۔


تعصب کی عینک اتار کر دیکھنے والے کو یہ صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر لڑائی کا تندور گرم رکھنا ایسے لوگوں کی دال روٹی کیلئے ضروری ہے۔


ان کا تو پاکستان بنانے پر کچھ خرچ ہی نہیں ہوا! انہیں کیا ہے کہ پاکستان رہے یا نہ رہے۔


ان کے خون آشام جتھوں کی وجہ سے جہاں پاکستان کے اندر لوگ عدمِ تحفظ کے شکار ہیں وہیں پاکستان کے سارے بارڈر بھی غیر محفوظ ہیں۔ یہ مفاد پرست ٹولہ اور فرقہ افغانستان میں اپنی طالبانی حکومت قائم کرنے کے بعد اب افغانستان ہی سے پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔

سانحہ اے پی ایس پشاور ان کی احسان فراموشی اور درندگی کی ناقابلِ فراموش دلیل ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے اندر جو فتنہ و فساد اور خون خرابہ ہوتا ہے یہی ٹولہ کرتا ہے۔

منظور مینگل اور ان کے بڑوں نے پاکستان و افغانستان میں بنامِ مذہب جو کھلواڑ کیا وہ تاریخ پاکستان و افغانستان کا ایک بھیانک باب ہے۔

ان لوگوں کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ لگنے والا ہمارا بارڈر کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد طالبان حضرات اب پاکستان کے بجائے ہندوستان کےحلیف ہیں اور اب وہ کشمیر کی آزادی اور جہاد کی بات تک نہیں کرتے۔

مولوی منظور مینگل صاحب کے ہم مشرب حضرات نے کشمیر میں جو گُل کھلائے وہ بھی اب سب کے سامنے ہیں۔

انہوں نے اپنے تربیت یافتہ افراد کے ہاتھوں جہاں پاکستان میں بے گناہوں کو قتل کرایا وہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی درندگی اور سفاکیت کی ایک دردناک تاریخ رقم کی خصوصاً مقبوضہ کشمیر کے جنگلوں میں اپنی آزاد عدالتیں لگا کر نہتے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان کے سفاکانہ طرز عمل اور شدت پسندانہ بلیک میلنگ کے طرزِ تفکر نے آج تحریکِ آزادی کشمیر کو ساری دنیا میں تنہا کردیا ہے۔

آج آپ "سارے کشمیر میں ریفرنڈم" کے بجائے "صرف آزاد کشمیر میں ہی ریفرنڈم" کروا کے دیکھ لیں۔ ہمارے کشمیری برادران اب پاکستان کے ساتھ الحاق کو ایک ڈراونے خواب کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔

کشمیر کے لوگ جیسے ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نالاں ہیں ویسے ہی پاکستان میں مذہبی جنونیت کے عفریت سے بھی خوفزدہ ہیں۔

بارڈر کے دونوں طرف کے کشمیریوں کی اکثریت پاکستان میں برادر کُشی، فرقہ وارانہ بلیک میلنگ، مذہبی جنونی جتھوں کی بھرمار نیز پسماندہ علاقوں میں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کے بجائے شدت پسندوں کے دینی مدارس اور عسکری و خونی ونگز کا جال دیکھ کر خود مختاری کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔

کشمیریوں کی اکثریت کیلئے خودمختاری کا آپشن بادلِ نخواستہ ہی سہی لیکن ہندو شدت پسندوں کے بعد مسلمان شدت پسندوں کے ہاتھوں اپنے پیاروں کے خون میں تر بتر لاشے دیکھنے سے تو بہتر ہے۔ الغرض یہ کہ مولوی مینگل صاحب اور ان کے مکتب کو پاکستان یا کشمیر سے کوئی غرض نہیں۔

ان دنوں مولوی مینگل صاحب کے ہم مذہب افرادنے سوشل میڈیا پر چور مچائے شور والا کام شروع کر رکھا ہے۔ آئے روز لوگوں پر توہین مذہب اور گستاخی کی ایف آئی آرز دھڑا دھڑ درج کرائی جا رہی ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ توہینِ مذہب اور گستاخی ہونی چاہیئے بلکہ ہم اپنے ہم وطنوں کی توجہ اس طرف دلانا چاہتے ہیں کہ یہ ایف آئی آرز وہ لوگ کٹوا رہے ہیں کہ جو نبی ؐ کے والدینِ گرامی کو اور اولیائے کرام نیز اولیائے کرام سے توسل کرنے والوں کو کافر اور مشرک نیز نجس و واجب القتل جیسی گالیاں دیتے ہیں۔ جو لوگ قیامِ پاکستان کو ہی ایک گناہ کہتے ہیں اور جنہوں نے مختلف جنونی جتھے بناکر پاکستان کے بہترین صحافیوں، ڈاکٹرز، وکلا، شعرا، بینکاروں، تاجروں، پولیس و فوج کے جوانوں و افیسرز اور اے پی ایس کے بچوں کو شہید کیا۔ جنہوں نے البدر نیز الشمس جیسے ٹولے بنا بنگلہ دیش کو جدا کر کے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے ہی اب مسلمانوں کے خلاف توہین و گستاخی کی ایف آئی آرز کٹوانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے قادیانی حضرات اٹھ کر مسلمانوں کے خلاف ختمِ نبوّت کی توہین کی ایف آئی آرز درج کرانی شروع کردیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ ایف آئی آرز نہ کاٹی جائیں، ضرور کاٹی جائیں لیکن یہ ایف آئی آرز بدنیتی پر مبنی نہیں ہونی چاہیئے۔

توہین مذہب یا گستاخی کی ایف آئی آرز جو آدمی بھی کٹوانے کا دعوی کرے تو سب سے پہلے یہ تو دیکھا جائے کہ کہیں وہ خود گستاخ تو نہیں۔ اُس سے یہ پوچھا جائے کہ کہیں وہ نعوذباللہ نبی اکرم ؐ کو اپنے جیسا گھٹیا انسان تو نہیں سمجھتا؟

اس سے دوسرا سوال یہ کیا جائے کہ وہ نبی اکرمؐ کے والدین کو مومن اور پاکیزہ سمجھتا ہے یا نعوذباللہ کافر و مشرک اور نجس کہتا ہے؟

اس سے تیسرا سوال یہ کیا جائے کہ وہ اولیائے کرام کے مزارات کو توحید کے مراکز کہتا ہے یا شرک کے اڈے سمجھتا ہے؟ نیز وہ انبیائے کرام سے توسل کرنے والوں کو مشرک اور کافر کہتا ہے یا مسلمان اور مومن؟

اگر قادیانی برادری کی طرف سے مسلمان فرقوں کے خلاف مقامِ ختمِ نبوّت اور تاجدارِ ختمِ نبوّت کی توہین کرنے کی ایف آئی آرز درج کرانی شروع ہو جائیں تو کیا آپ اسے منصفانہ کہیں گے؟

اسی طرح جو لوگ خود گستاخِ رسول ہیں، رسولؐ کے والدین اور اولیائے کرام نیز ان سے توسل کرنے والوں کو مشرک و کافر کہتے ہیں ان کی طرف سے توہین مذہب اور گستاخی پر مبنی ایف آئی آرز کا سلسلہ ملک و قوم کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے اور سب اہالیانِ وطن کو مل کر اس سازش کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

یہ ملک رہے گا تو ہم رہیں گے۔ جو لوگ نبی اکرمؐ اور ان کے والدین کے گستاخ ہیں جو اس ملک کے قیام اور بانی پاکستان کے ہی خلاف ہیں، انہیں اس سے کیا غرض کہ یہ ملک رہے یا نہ رہے۔

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 42 تاريخ : پنجشنبه 6 مهر 1402 ساعت: 18:40