جنرل اروڑہ کو جنرل عثمانی کا طعنہ

ساخت وبلاگ

سقوطِ ڈھاکہ کا ایک ورق
✍️ رائے یُوسُف رضا دھنیالہ

16 دسمبر، 1971ء کو مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا تھا ۔ یہی وہ دن ہے کہ جب پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے جنرل'>جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ڈھاکہ میں ہتھیار پھینک کر ہندوستان سے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی۔ اس موقع پر مجھے وہ تاریخی طعنہ یاد آرہا ہے جو مُکتی باہنی کے بانی جنرل عطأ الغنی عثمانی نے جنگ کے خاتمے کے بعد جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو دیا تھا۔
اس طعنے کے پسِ منظر کو جاننے کی ضرورت ہے۔فاتحِ بنگال جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ 1916ء میں جہلم کے قصبے کالا گوجراں، متحدہ پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ 1939ء میں اُنہوں نے برِٹش انڈین آرمی جوائن کی اور جنگِ عظیم دوئم میں برما کے محاذ پر لڑے۔1971ء میں وہ ہندوستانی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے جب اُنہیں مشرقی پاکستان پر فوج کشی کا حکم ملا۔ میجر عطأالغنی عثمانی کا جنم 1918ء میں سلہٹ، مشرقی بنگال میں ہوا اور دوسری جنگِ عظیم میں وہ ایک برطانوی مکینیکل ٹرانسپورٹ بٹالین کا حصہ تھے۔ تقسیم کے بعد عثمانی پاکستانی فوج میں شامل ہو گئے۔
1947ء میں عثمانی کشمیر کے محاذ پر ہندوستانی افواج کے خلاف لڑے لیکن اُن کی بہترین خدمات 1965ء کی جنگ میں سامنے آئیں جب اُنہوں نے اپنی اعلیٰ عسکری کارکردگی کے باعث ستارۂ جرأت اور تمغہ جرأت سمیت 17 تمغے حاصل کیے۔
1970ء کے قومی انتخابات میں عوامی لیگ کی جیت کے باوجود جب اُس وقت کے فوجی حکمرانوں نے اقتدار شیخ مُجیبُ الرحمان کو نہ سونپا بلکہ الٹا بنگالیوں کو غدّار کہہ کر اُن کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا تو ایسے میں مشرقی پاکستان میں جب کشیدگی شروع ہوئی تو میجر عثمانی نے اپنی ہمدردیاں بدل لیں اور اُنہوں نے فوج سے مُنحرف ہو کر بنگال میں ایک باغی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام آگے چل کر "مُکتی باہنی" پڑا۔

آج تک یہ تاریخی غلط فہمی عام ہے کہ مُکتی باہنی کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن تھے۔ فی الحقیقت مکتی باہنی کے بانی اور کمانڈر پاکستانی فوج کے منحرف فوجی افسر کرنل عطا الغنی عثمانی تھے نہ کہ مجیب۔

جب پہلی شورش کا آغاز ہوا تو شیخ مُجیب اگرتلہ کیس میں پیشیاں بھُگت رہے تھے اور جب مُکتی باہنی کا آتنگ اور 71ء کی جنگ چل رہی تھی تو شیخ مُجیب باہر کے حالات سے مکمل بے خبر مغربی پاکستان کی جیلوں میں قید وبند کی صعُوبتیں برداشت کر رہے تھے۔

اِقتدار کی مُنتقلی سے اِنکار کے بعد احتجاج اور سِوّل نافرمانی پر قابو پانے کے لئے نومنتخب نمائندوں کے ساتھ ڈائیلاگ کے ذریعے کوئی سیاسی حل نکالنے کے بجائے جب جنرل یحیٰی خان کی حکومت نے فوجی آپریشن کے ذریعے حکومت سازی کے دعوے سے بنگالیوں کو دستبردار کرانا چاہا تو ایسے میں میجر عثمانی نے یحیٰی خان کی فوج کو چھوڑ کر اپنی بنگالی قوم کو مغربی پاکستان کی حاکمیت سے نجات دلانے کے لئے عسکری جدوجہد کی راہ اپنائی اور پھر مشرقی بنگال میں تعینات مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں اور پنجابیوں کو اُنہوں نے چُن چُن کر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
یحیٰی خان کی افواج کا بنگالی عوام کے خلاف آپریشن جتنا شدید تھا، اُتنا ہی شدید ردِعمل میجر عثمانی کی زیرِ قیادت بنگالیوں کی طرف سے بھی سامنے آیا ، اور یوں دو جنرلوں نے برادر کُشی اور سفّاکیت و درندگی کی ایک نئی تاریخ مرتب کی۔
ابو شجاع وقار نے تو اپنی کتاب " جانباز " میں عثمانی کی سفاکیّت کے کچھ واقعات قلمبند بھی کئے ہیں جنہیں آپ پڑھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے جنرل صاحب کی داستانیں بھی زدِ عام ہیں۔

سرنڈر کے بعد :

16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے "راما ریس کورس میدان" میں سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کیے گئے۔ اس موقع پر ریس کورس میں ہزاروں مُشتعل بنگالیوں کا ایک ہجوم دَر آیا تھا جو جنرل نیازی پر ٹُوٹ پڑنے کے لئے بے تاب تھا تاکہ اُس کی تِکہ بوٹی کر دی جائے، لیکن جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ نے جنرل نیازی کو اِس مُشتعل ہجوم سے بچانے کے لئے اضافی نفری طلب کرلی اور اس طرح یہ واقعہ رُونما ہوتے ہوتے رُک گیا۔
لیکن اِس کے بعد عطاء الغنی عثمانی نے ایک اور مطالبہ پیش کر دیا۔ وہ یہ کہ سرنڈر کرنے والے تمام پاکستانی فوجیوں اور مشرقی پاکستان میں تب تک مُقیم اُن کے خاندانوں کو غیر مشروط طور پر مُکتی باہنی کے حوالے کردیا جائے۔ ۔۔لیکن۔۔۔۔۔جنرل اروڑہ نے یہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا،چونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔یہ مسٹر عثمانی ہی تھے کہ جنہوں نے جنگ کے خاتمے کی خوشی کچھ یوں منائی تھی کہ بنگلہ دیش میں پھنس چکی مغربی پاکستانیوں کی کئی فیملیز کو قتل کر دیا تھا۔
جنرل اروڑہ کو اِس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اگر پاکستانی فوجیوں کو عثمانی کے حوالے کیا گیا تو اُن میں سے کوئی ایک بھی زندہ بچ کر واپس نہیں جا پائے گا اور سرزمینِ جہلم سے تعلق ہونے کی وجہ سے جنرل اروڑہ کے دل میں ابھی بھی اُن کے لیے ہمدردی کا عنصر موجود تھا۔چنانچہ جنرل اروڑہ کی طرف سے سختی سے صاف انکار پر مسٹر عثمانی نے طعنہ دیا کہ:

"اروڑہ سالا، اپنے پنجابی بھائیوں کو بچا کر لے جا رہا ہے۔"

جنرل اروڑہ نے اپنی بات کا مان رکھا اور سرنڈر کے بعد کسی بھی پاکستانی کو مُکتی باہنی کے حوالے نہ کیا گیا۔

مقبول ترین

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 35 تاريخ : يکشنبه 3 دی 1402 ساعت: 13:18