پاک ایران کشیدگی اور تین باتیں
نذر حافی


ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں پر لاعلمی کی حکومت ہے۔ میرے لئے بحیثیتِ پاکستانی یہ افسوس کا مقام ہے کہ جس ملک میں سیاستدانوں کے ٹیلی فون تک ریکارڈ ہوتے ہیں، اس میں سائبر کرائمز اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔فیک آئی ڈیز کے ذریعے اور طرح طرح کے سائبر ہتھکنڈوں سے جگہ جگہ عام شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے لیکن متعلقہ ادارے لاعلم ہیں۔گزشتہ سالوں میں دہشت گردوں نے پاکستان میں اسّی ہزار نہتّے انسان مار دئیے لیکن ہمارے ملکی اداروں کا بیانیہ یہی ہے کہ ہمیں دہشت گردوں کے ٹھکانوں، مدارس اور مسلک کا علم نہیں۔اسامہ بن لادن پاکستان میں قتل ہوا لیکن ہمارے سیکورٹی اداروں کا بیانیہ یہی رہا کہ ہم پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی سے لا علم تھے۔گزشتہ کئی سالوں سے تفتان اور ریمدان بارڈر پر جو مسافروں، علمائے کرام اور زائرین کے ساتھ ہو رہا ہے ، وہ سب ہمارے ملکی اداروں کے علم میں بالکل نہیں ۔اسی طرح پارہ چنار میں کتنے ہی برس سے جو اہل تشیع کا ہولوکاسٹ جاری ہے، اس حوالے سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور مذہب کا ملکی اداروں کو کچھ پتہ نہیں۔
آئے روز گلگت و بلتستان کے مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن قاتلوں کے ٹھکانوں اور مدارس و مسلک کا ہمارے سیکورٹی اداروں کو کوئی علم نہیں۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ایران کی جانب سے واضح اور مطلوبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر میزائل داغنےکے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے تہران سے کہا کہ وہ اسلام آباد کو پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں اور نقل و حرکت کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرے۔ یعنی ہم تو لاعلم ہیں آپ بتائیں۔
اب شرم سے ہمیں ڈوب مرنا چاہیے کہ پاکستان جیسے ہائی سیکورٹی اور ایٹمی طاقت کے حامل ملک میں مبیّنہ دہشت گردوں کے خلاف ایران نے پاکستان کے اندر کاروائی کر دی اور ہمارے اداروں کا بیانیہ یہ ہے کہ ہمیں اس کارروائی کا علم نہیں تھا۔یہ لاعلمی ہر پاکستانی کیلئے باعث شرمندگی ہے۔ ماورائے عدالت لوگ لاپتہ اوراغوا۔۔۔ہم لا علم ہیں، سائبر کرائم کی بھرمار۔۔۔ہم لا علم ہیں، سانحہ ساہیوال ۔۔۔ہم لاعلم ہیں، سٹریٹ کرائم۔۔۔ہم لاعلم ہیں، ٹارگٹ کلنگ۔۔۔ ہم لاعلم ہیں،تفتان و ریمدان بارڈر پر سرکاری اہلکاروں کی رشوت و بداخلاقی ۔۔۔ ہم لاعلم ہیں،پارہ چنار میں شیعہ کا ہولو کاسٹ ۔۔۔ ہم لاعلم ہیں، گلگت و بلتستان کے راستے میں مسافروں کا قتلِ عام ۔۔۔ہم لا علم ہیں، احسان اللہ احسان کا فرار ۔۔۔ ہم لاعلم ہیں، پورے ملک میں انسان کش کالعدم تنظیموں کی کارروائیاں اور شدت پسندی کو فروغ دینے والے مدرسے ۔۔۔ ہم لاعلم ہیں، ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے لے کر انسانی اسمگلنگ تک سب کچھ۔۔۔ لیکن ہم لاعلم ہیں،اب ایرانی پاکستان کے اندر جاکر اپنے مطلوبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر آگئے اور ہمارا بیانیہ پھر وہی ہے کہ ہم لاعلم ہیں۔۔۔۔
بھائی اگر آپ اتنے ہی لاعلم ہیں تو پھر مولانا منظور مینگل صاحب سے پوچھ لیجئے کہ دہشت گردوں کا مذہب ، مسلک، اور شجرہ نسب کیا ہے نیز اُن کے ٹھکانے کہاں کہاں ہیں، اور کون انہیں ٹریننگ دے کر پاکستان سے ایران بھیجتا ہے؟ویسے یہ بعید نہیں کہ اس مشورے کا بھی یہی جواب ملے کہ مولانا منظور مینگل کون ہے؟ ہمیں تو اُس کا علم نہیں،ہم تو اس سے لا علم ہیں۔
خیر اب اس کشیدگی کے بعد تین باتیں یاد رکھیں:
۱۔بلوچستان میں عوام کیلئے جو پہلے ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں، وہ ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی سے خشک نہیں ہوں گی۔جو لوگ اتنے بڑے تاجر ہیں کہ ایرانی تیل کی اسمگلنگ اور مسافر بسوں کے ذریعے طرح طرح کی اسمگلنگ کرتے ہیں ، وہ اپنے منافع کی ہر صورت حفاظت کریں گے۔ہمارے سیانوں نے بلوچستان کے عام لوگوں کو جتنا پسماندہ رکھا ہوا ہے وہ اس سے زیادہ پسماندہ ہو ہی نہیں سکتے ، انہوں نے آنسووں کے ساتھ ہی لقمے تر کر کے کھانے ہیں سو اُن پر سرحدی تنازعات یا امن کا کوئی اثر نہیں۔وہ ویسے ہی مرے ہوئے ہیں اور مرتے کو مارے شاہ مدار۔۔۔
۲۔اسی طرح اہالیانِ بلوچستان کی طرح زائرین اور مسافروں کی صحت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمارے سیانوں کو بلوچ عوام کی طرح زائرین اور مسافروں سے بھی کیا غرض ہے۔ بس سب کی تنخواہیں لگی ہوئی ہیں۔ مزے ہو رہے ہیں۔ پہلے بھی تفتان و ریمدان بارڈر کا عملہ لوگوں کے ساتھ کون سا عزت و احترام کے ساتھ پیش آتا تھا یا عوامی شکایات پر کوئی کان دھرتا تھا، اور پہلے کون سے مسافر، زائرین اور بارڈر سے گزرنے والے طلبا خوش تھے جو اب پریشان ہونگے۔
۳۔اس صورتحال کا سارا فائدہ اُنہیں ہوگا جن کی پانچوں اُنگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ تنخواہیں بھی ہیں، پروٹوکول بھی ہے، تجارت بھی ہے ، منافع بھی سیکورٹی بھی، اور دھونس بھی۔ جو ہو رہا ہے اس کا خراج امریکہ سے وصول کیا جائے گا چونکہ یہ واضح ہے کہ اب تک امریکی و اسرائیلی پراکسیز کی جانب سے ایران کسی براہِ راست حملے سے محفوظ تھا۔ جہادِ افغانستان کے بعد ہمیں ڈالر بٹورنے کا ایک اور سنہری موقع ہاتھ آگیا ہے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ہاتھ دھو رہے ہیں۔
ہمیں اس لاعلمی کو علم میں اور حساسِ ذمہ داری میں بدلنے کی ضرورت ہے۔یہ ملک ہمارا ہے، اسے لاعلمی سے نہیں بلکہ احساسِ ذمہ داری سے ہی بچایا اور آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔


افکار و نظریات: news, twitter, islamic, face