بچے، سماج اور قوانین

ساخت وبلاگ

بچے، سماج اور قوانین

تبرید حسین 

نوٹ:
میں نے یہ تحریر تقریبا ایک ہفتہ قبل تحریر کی تھی مگر ایسا ہیجان اور جذباتیت کی کیفیت برپا تھی کہ مجھے لگتا تھا میری تحریر کے پرزے اڑا دئیے جائیں گے۔ سو کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ انتظار کریں۔ اب مزید کچھ پرت جب کھل رہے ہیں تو سوچا آپ کی خدمت میں پیش کر دوں 

دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی وغیرہ کے کیس کے حوالے سے پہلے بھی لگے لپٹے انداز سے ایک تحریر لکھی تھی اور مزید کچھ لکھنے کا یارا نہیں تھا۔ اس کی وجہ ایسے موضوعات کی حساسیت اور ہمارے انتہائی جذباتی روئیے تھے۔
مگر آج پھر بہت سے سوالات اٹھے اور اور اس ہیجان میں ہر کوئی اپنے یوٹیوب چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے جو منہ میں آ رہا ہے ہانکتا چلا جا رہا ہے۔ 
پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں میں خود ایک باپ ہوں اور وہ بھی بیٹی کا باپ مگر دوسری طرف قلم ہاتھ میں تھامے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی فہم کے مطابق ایک ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کروں کہ شائید ایسے کیسز جو اب ہمارا معاشرتی المیہ بن چکے ہیں ان کو سمجھنے اور معاشرے میں بہتری لانے کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔
یہ بہت ضروری ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ دعا زہرہ یا نمرہ کاظمی کے وہ کیسز ہیں جو میڈیا اور عوام کی نظروں میں آگئے وگرنہ روزانہ دعا اور نمرہ جیسی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لڑکیاں اس سے ملتی جلتی صورتحال کا شکار ہو رہی ہیں اور وہ اور ان کے والدین اس سے بد تر حالات میں عدالتوں کے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔
اس کیس کے دو پہلو ہیں ایک اخلاقی اور ایک قانونی۔
 ہم کوشش کریں گے ان دونوں پہلووں کو احاطہ کریں۔

اخلاقی پہلو:
دعا کے والدین کی حالت دیکھ کر بطور والدین ہم سب کا دل بہت دکھی اور زخمی ہوا۔ سب سے پہلے خالق دو جہاں سے دعا گو ہیں کہ مالک انہیں سکون اور قرار نصیب فرمائے۔
اخلاقی اعتبار سے یہ درست ہے کہ جس عمر میں بچے اپنے برے اور بھلے کا درست سے انداز سے فیصلہ نہیں کر سکتے ان کے ولی/ والدین کی رضامندی سے ہی ایسے اہم اور مہم فیصلے ہونا چاہیں۔ اور دعا زہرہ کے اس انداز سے اٹھائے گئے قدم کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
مگر یہ سب کہنے کے باوجود ہم سب اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت سے بری الذمہ نہیں ہیں۔ ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں۔ جہاں ہر سو ہمارے نسلوں کی تباہی کا سامان موجود ہے اور ہم بطور والدین اپنے بچوں کو سکول بھیج کر اور قاری صاحب سے قرآن پڑھوا کر مطمئن ہیں کہ ہم نے ذمہ داری پوری کر لی۔ انہیں ٹیکنالوجی اور غیر ضروری بلکہ ضرر رساں مواد تک بچوں کی آسان رسائی کے بعد ہماری بطور والدین ذمہ داری کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ مثلا پرانے زمانے میں نوجوان بچوں کے رابطے کا ذریعہ فقط رقعہ ہی ہوا کرتا تھا مگر آجکل کمپیوٹر، ٹیبلٹ اور سب سے بڑھ کر سمارٹ موبائلز کے ذریعے آپ دنیا کے کسے کونے میں بھی کسی سے بھی کسی بھی عنوان سے رابطہ دوستی کر سکتے ہیں۔ اب سوال ہے ایسے میں والدین کیا کریں۔ میری نظر میں والدین کو 
1- اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ قران اور سیرت محمد و آل محمد سے روشناس کروانے اور جوڑنے کا اہتمام کروانا چاہئے۔
2- اپنے بچوں کو وقت دیں، اسقدر پیار کا حصار ان کے گرد کھینچ دیں کہ وہ اس پیار اور توجہ کے حصول کیلئے ادھر ادھر مارے مارے نہ پھریں 
3- ان کو گھر میں دوستانہ ماحول دیں تا کہ وہ اپنی ہر بات پوری بے تکلفی کیساتھ کر سکیں۔ اور وہ سمجھیں کہ آپ ان کے مخالف نہیں بلکہ مددگار ہیں۔
4- موجودہ دور میں gadgets اور ان کے استعمال پر اپنا چیک اینڈ بیلنس بہتر کریں اور خود کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور چیزوں سے روشناس کروائیں۔
مگر بدقسمتی سے بہت سے والدین مادیت زدہ اس معاشرے میں پیسے کی دوڑ میں اتنا آگے نکل گئیے ہیں کہ اپنی اولاد ہی کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔

وائے ناکامی متاع وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
5- اور اہم بات کہ ہمیں اپنی تحریر و تقریر میں والدین کیساتھ ساتھ بچوں کے حقوق اور دونوں فریقین/ طرفین کے حقوق اور عزت و احترام کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ یہی تقاضائے عدل اور تعلیمات قرآن و اسلام ہیں۔

 *قانونی پہلو:* 

آئیے اب ایک نظر قانونی پہلو پر ڈالتے ہیں۔
میں نے کچھ دن قبل عزیز دوست اور معروف ماہر قانون  Inam Rana  جناب انعام رانا صاحب سے بھی اس عنوان سے سیر حاصل گفتگو کی اور رہنمائی حاصل کی۔
ہمارے بہت سے دوست اس کے قانونی پہلووں کو بھی جذبات کی نظر سے دیکھتے ہیں جس وجہ سے درست تجزیہ نہیں کر سکتے۔
1- واقعات کے مطابق دعا زہرہ کی شادی لاہور میں وقوع پذیر ہوئی جس وجہ سے شادی کی عمر کا تعین یہاں کے قوانین کیمطابق ہونا ہے جو کہ سولہ برس کا قانون ہے نہ کہ سندھ کے قوانین کے مطابق جو کہ اٹھارہ برس ہے۔
2- دعا زہرہ کا کیس جو سندھ ہائی کورٹ میں داخل ہوا وہ برآمدگی یا اغوا سے متعلق تھا۔ جب لڑکی سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر برآمد ہو چکی اور یہ بیان بھی دی چکی کہ میں اپنی منشاء اور مرضی کیمطابق گئی ہوں اور رہ رہی ہوں تو یہ ظاہر ہے اغوا کا کیس بھی ثابت نہیں ہوتا۔ یاد رہے دعا زہرہ متعدد بار یہ بیان دے چکی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے۔ اور اہم بات کہ دعا زہرہ نے ماں باپ کیساتھ جانے سے صریحا انکار کیا  تو اس صورت میں عدالت کی پاس کیا آپشن باقی رہ جاتی تھی؟
3- ہاں یہ بات البتہ کسی حد تک درست ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کو بچی کا عمر کی جانچ کیلئے میڈیکل ٹسٹ  نہیں کروانا چاہئے تھا اور یہ معاملہ ٹرائیئل کورٹ کیلئے چھوڑ دینا چاہئے تھا۔ لیکن عدالتیں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور بیرونی ہیجان اور جذباتی کیفیات کے سبب گاہے تجاوز کر جاتی ہیں۔
4- یہ کیس ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ تمام شواہد سب سے اہم مرحلے یعنی ٹرائل کورٹ میں پیش ہونگے اور عدالت ان شواہد پر فیصلہ دے گی۔
5- بہت ممکن ہے کہ اب سندھ ہائی کورٹ کی jurisdiction بھی چیلنج ہو جائے کیونکہ وقوعہ پنجاب میں ہوا ہے اور بچی اغوا نہیں ہوئی بلکہ اپنی مرضی سے پنجاب پہنچی ہے۔ تو اس صورت میں سندھ ہائی کورٹ تو ویسے ہی باہر ہو جائیگی۔
6- کہا جا رہا ہے کہ بچی کو سندھ ہائی کورٹ نے ملنے نہیں دیا حالانکہ واقعات اور شواہد اس کے خلاف ہیں۔ بچی نے والدین سے ملنے سے انکار کیا مگر عدالت نے پھر بھی اہتمام کیا کہ بچی والدین سے مل پائے۔
7- یاد رہے ابھی تمام شواہد پر ٹرائیل کورٹ میں بحث ہونا باقی ہے اور وہ اہم مرحلہ ہے۔
8- اسی طرح لڑکی کیسے لاہور کیسی پہنچی، روابط کے ذریعے کیا تھے، یا پھر ماں باپ نے بچی کو تعلیم سے کیوں اٹھا رکھا تھا۔ کیا گھر میں واقعی اتنا ڈر اور خوف کا ماحول تھا وغیرہ وغیرہ اور ایسے بہت سے سوالات کے جوابات ابھی باقی جو شاید آنے والے وقت میں سامنے آئیں۔
9- اور سب سے اہم بات کہ چائلڈ پروٹیکشن کے حوالے سے ہمارے ادارے اور قوانین بہت کمزور ہیں مگر افسوس اس کے حوالے سے نہ کبھی سوچا نہ کبھی کوئی تحریک اٹھائی۔ ہم اپنے رویوں کے اعتبار سے بہت reactive واقع ہوئے ہیں۔ جونہی کوئی وقوعہ ہوتا ہے ہم مظاہروں اور دھرنوں کیلئے باہر آ جاتے ہیں مگر چند ہی دنوں میں کوئ اور واقعہ یا زندگی کے جھمیلے ہمیں کہیں اور مصروف کر دیتے ہیں اور جب میڈیا کسی اور سانحے کا پردہ فاش کرتا ہے تو ہم اگلے مظاہرے یا احتجاج کی تیاری میں مصروف۔ ہم اپنے لا ابالی مزاج کے سبب کوئی ٹھوس یا concrete پیش رفت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور اس طرح مجرم بھی بچ نکلتے ہیں اور آئیندہ جرم کا رستہ بھی کھلا رہتا ہے۔

 *متفرق موضوعات*
 
1- میری فہم کیمطابق کچھ طبقات نے اس کیس کو غیر ضروری طور پر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جو خدا کا شکر ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے مین سنگین صورت اختیار نہیں کر گئی۔ مثلا اس مدعا کا آغاز ہی ایک ایسا واقعہ کے بیان سے کیا گیا جو نہ صرف فرقہ وارانہ رنگ رکھتا تھا بلکہ  ہمارے منقسم معاشرے میں صحت مند رجحان کی بجائے منفی رجحان پیدا کر سکتا تھا۔ کہا گیا کہ ان " شیعہ"  ناموں کی وجہ سے اہلسنت مساجد میں بچی کی گمشدگی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ مانتا ہوں کسی ایک آدھ جگہ پر ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہو مگر یہ واقعہ ہمارے معاشرے کی عمومی طور پر درست عکاسی نہیں کرتا۔ میں خود جس گاؤں میں رہتا ہوں وہاں کسی بھی فرد کی فوتیدگی پر شیعہ سنی دونوں مساجد میں اعلان کیا جاتا ہے اور دونوں اطراف سے لوگ شریک ہوتے ہیں تعزیت کرتے ہیں ایکدوسرے کے مہمانوں کیلئے کھانا پکاتے ہیں۔ اسی طرح ابھی بھی ہمارے خانوادوں میں شیعہ سنی شادیوں تک کا رواج باقی ہے ۔ مٹھی بھر شرپسندوں کو چھوڑ کر یہ ایک صحت مند رجحان ہے الحمداللہ۔
 
2- اسی طرح قومی تنظیموں اور علماء کو بھی چاہئے کہ موقف اختیار کرتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اور واقعات کے غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد ہی کوئی قطعی موقف قائم کریں۔

3- اسی طرح ہمارے کچھ اچھے لکھنے والے لکھاریوں اور دوست بلاگرز نے بھی بلاتحقیق اس سب کچھ کو سیکس ٹریفیکنگ، ڈارک ویب, سیکس ریکٹ اور پتہ نہیں کیا کچھ قرار دیا مگر یہ سب امکان اور assumptions کی بنیاد پر تھا جس کا کوئی ثبوت 50 سے زیادہ دن گزرنے کے باوجود ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ یہ سب شائید نیک نیتی کی بنیاد پر ہو مگر پھر بھی ہمیں دوسرے فریق پر اتنے سنگین الزامات لگانے سے پہلے تحقیق ضرور کرنی چاہئے ورنہ یہ عدل کے تقاضوں کیخلاف ہے اور ہم جوابدہ بھی۔

4- ایک اور فریق جو گدھ کی طرح دونوں اطراف سے اس مسئلے سے چمٹا ہوا وہ ہیں یو ٹیوبرز۔ ریٹنگ اور پیسے کے حرص کیوجہ سے انہیں اگر لوگوں کی عزت و ناموس سے بھی کھیلنا پڑے یا معاشرے میں ہیجان برپا کیوں نہ ہو انہیں اس کی پرواہ نہیں۔ خدا ہدائیت دے اور معاشرے کو اس شیطان ہتھکنڈے سے محفوظ رکھے۔
5- اسی طرح جیسے ہم والدین یا ولی کا حق نہ صرف تسلیم کر رہے ہیں بلکہ حمایت کر رہے ہیں اس طرح ہمیں اپنی بالغ بچوں اور خاص طور پر بچیوں کے حق کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ انکے منشاء اور مرضی کیخلاف انہیں کھونٹی سے نہ باندھا جائے 
6- ہمارے تھنک ٹینکس/ پروفیشنلز اور علماء کو مل بیٹھ کر سوچنے چاہئے کہ موجودہ دور کے چیلنجز کیا ہیں اور ہم ان سے کیسے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور کیسے اپنے خاندانی نظام اور معاشرتی اقدار کو بچانے کیلئے  قرآنی تعلیمات پر عمل پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ اور اپنی آئندہ نسل کو محفوظ رکھ سکتے ہیں

میرا مشورہ یا رائے اس کیس کے حوالے سے یہی ہے کہ مہدی کاظمی صاحب لڑکے کے خانوادے کی خود جا کر علاقے کے صاحب الرائے لوگوں سے تحقیق کریں اور اگر اطمینان حاصل کر لیں تو معززین یا عدالت کو شامل کر کے لڑکے والوں سے کہیں کہ عزت و احترام سے رشتہ لیکر آئیں اور بچی بیاہ کر لیجائیں۔ یہ کسی کی انا، ضد اور فتح اور شکست کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ معاشرتی اقدار اور اس واقعہ سے جڑی کئی زندگیوں کا مسئلہ بھی ہے۔

تبرید حسین
لندن
15 جون 

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 138 تاريخ : چهارشنبه 1 تير 1401 ساعت: 11:52