یہ پاکستان کی خود مختاری کا مسئلہ ہے یا کچھ اور؟

ایم اے راجپوت


ہم نے گزشتہ کالم میں یہ عرض کیا تھاکہ ہر تجزیہ کار کو یہ حق ہے کہ وہ پاکستان و ایران کی حالیہ کشیدگی کا جائزہ لے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دینِ اسلام ، بھائی چارے اور اُمّت مسلمہ کے تصوّر کو ہی مٹا دیا جائے اور ایران و پاکستان کے درمیان دشمنی کی آگ کو مزید بھڑکانے کیلئے کام شروع کر دیا جائے۔ ہمیں حالات کا جائزہ اس لئے لینا چاہیے تاکہ دوبارہ ایسے حالات پیش آنے سے بچا جائے۔
ہمارے خیال میں پاکستان نے ایران کے جواب میں جو کیا اُس کا کسی بھی خود مختار ملک کو جوابی طور پر قانونی حق پہنچتا ہے ۔ اس قانونی حق کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہی قانونی حق پاکستان نے کبھی امریکہ یا افغانستان کے خلاف کیوں استعمال نہیں کیا؟

ہماری حکومت ایسے سخت اقدامات افغانستان اور امریکہ کے پاکستان کے اندر آکر حملوں کے خلاف کیوں نہیں کرتی؟!

عملی طور پر افغانستان کے دہشت گرد طالبان حکمرانوں اور امریکی دہشت گرد حکومت کی طرف سے ہماری سالمیت اور خود مختاری پر ہونے والے ہزاروں حملوں کا جواب ہم نے کبھی آج تک ایسا نہیں دیا جیسا ایران کو دیا ہے۔
ہم افغانستان کے حوالے سے مختصر اشارہ کرتے ہیں ۔ دیکھیں جب سے دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے ۔انھوں نے سب سے پہلے باونڈری لائن اکھاڑ پھینکی ۔کتنی دفعہ سرحد پار سے ہمارے وطن عزیز کے اندر لشکر کشی ہو چکی جس کی وجہ سے قبائلی علاقہ جات کے حالات مسلسل خراب ہیں لیکن ہماری حکومت نے افغانستان کو آج تک ایسا جواب نہیں دیا جیسا ایران کو دیا۔
اور اس سے بھی افسوسناک صورت حال انٹرنیشنل دھشت گرد امریکہ کی ہے ۔بہت پیچھے نہ جائیں ۔سنہ 2000کے بعد کی پاکستان کے خلاف امریکی دھشت گردی کی درج ذیل مثالوں پر غور کریں۔
۱۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغوا
عافیہ صدیقی جو کہ اعصابی سائنسدان تھیں ۔30 مارچ 2003 کو کراچی سے راولپنڈی جانے کیلئے ٹیکسی میں ھوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئیں لیکن راستے سے امریکیوں نے اغوا کر لیا ۔اور پھر ابھی تک امریکی قید میں ہی ہیں ۔اور امریکی دھشت گرد فوج انھیں جنسی تشدد کا بھی نشانہ بناتے ہیں ۔کیا کراچی سے آکر پاکستانی خاتون کو اٹھا کر لے جانا ہماری خود مختاری اور سالمیت پر حملہ نہیں؟!

پھر یہ سب ایک طرف ہماری سرزمین کی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک لیکن ہمیں اتنی بھی غیرت نہیں آئی کہ امریکہ سے قطع تعلقی ہی کرلیں اور اسے کہیں جب تک ہماری بیٹی ہمیں واپس نہیں کرو گے ہمارا تم سے کوئی واسطہ نہیں۔بلکہ ایران کے خلاف کئے گئے اقدامات کے تناظر میں سفارتی تعلقات ختم کرنے کے ساتھ ساتھ جواب میں مزید اقدامات بھی ہونے چاہیے تھے۔
۲۔امریکہ کے پاکستان پر ڈراون حملے
امریکی دھشت گرد فوج نے پاکستان کے خلاف یہ حملے 2004 میں شروع کئے اور 2013 میں ختم کئے ۔ایران نے تو ایک حملہ کیا یہ سینکڑوں میں ہیں۔ان میں سے 73 حملوں کی تاریخ ،جگہ اور مارے جانے والے افراد کی تعداد سمیت تمام تفصیلات گوگل پر موجود ہیں۔گوگل کے مطابق ان حملوں میں سے صرف ایک سال کے حملوں میں 900 افراد مارے گئے۔اب دس سالوں میں کتنے مارے گئے ہوں گے اندازہ خود لگا لیں ۔

ایرانی حملے میں دو بچیوں کے مارے جانے پر اگر درج بالا اقدامات کئے جا سکتے ہیں تو امریکی سینکڑوں حملوں کے بعد تو بدرجہ اولی ایسے اقدامات بلکہ اس سے کہیں سخت اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔گوگل کے مطابق امریکی دھشت گرد جب ایک جگہ حملہ کرتے تو وہاں لوگ جمع ہو جاتے ۔لوگوں کے جمع ہونے بعد امریکی دوبارہ حملہ کر دیتے اور پھر جب ان افراد کی نماز جنازہ کیلئے لوگ جمع ہوتے تو نماز جنازہ پر تیسری مرتبہ حملہ کر دیتے ۔تو سوال تو بنتا ہے کہ ہماری خود مختاری اور سالمیت اس وقت کہاں تھی؟!
۳۔پاکستانی سرزمین پر اسامہ کا قتل
یکم مئی 2011 کو امریکی دھشت گرد فوجی ایبٹ آباد میں داخل ہو گئے اور اسامہ بن لادن کو قتل کر کے خیر خیریت سے واپس چلے گئے۔اس وقت کے ہمارے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے امریکہ سے عذر خواہی کا مطالبہ بھی کیا لیکن امریکہ نے کہا ہم معذرت خواہی نہیں کریں گے ۔ایران سے تو عذر خواہی کا انتظار کئے بغیر سفیر کو واپس بلا لیا گیا ۔ساتھ جوابی حملہ بھی کر لیا گیا لیکن دھشت گرد امریکہ سے نہ سفارتی تعلقات ختم کئے گئے اور نہ ہی امریکہ پر حملہ کیا گیا جبکہ عوام کی طرف سے کئی بار پر زور مظاہرے اور احتجاج بھی ہوے۔عافیہ صدیقی کے حق میں بھی ،ڈراون حملوں کے خلاف بھی اور اسامہ کے ہماری سرزمین پر مارے جانے کے حوالے سے بھی اور عوام نے کئی بار حکومت سے کہا کہ امریکی سفیر کو ملک سے نکالو ۔
۴۔ فوجیوں کو شہید کرنا
26 نومبر 2011 قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر نیٹو کے ہیلی کیپٹر کی بلا اشتعال فائرنگ سے ہمارے 26 فوجی شہید اور 14 فوجی شدید زخمی کر دئیے گئے۔نیٹو کا سربراہ بھی امریکہ ہی ہے ۔اگر نیٹو میں شامل تمام ممالک سے یکدم بدلہ لینا خلاف حکمت تھا تو کم از کم امریکہ سے تو بدلہ لیتے ۔کیا ان فوجی شہیدوں کی حیثیت ایرانی حملے میں ماری جانے والی دو بچیوں کے برابر بھی نہیں تھی؟!13 سال گزر گئے ان فوجی شہداء کی مائیں منتظر ہیں کہ ہماری حکدمت کب امریکہ سے بدلہ لے گے ۔؟!لیکن تا دم تحریر تو ہماری حکومت نے امریکہ کے خلاف کچھ نہیں کیا۔حتی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں بھی امریکہ کے ان دھشت گردانہ اقدامات کے جواب دینے کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
امریکی خلاف ورزیاں بہت زیادی ہیں ہم اختصار کی خاطر انھیں چار موارد پر اکتفا کرتے ہیں۔
ہماری حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے؟ افغانستان کی طالبان حکومت اور امریکی انٹرنیشنل دھشت گرد حکومت کی جارحیّت سے ہماری خود مختاری کی صحت خراب کیوں نہیں ہوتی جبکہ طالبان نے تو کبھی ہم پر رحم نہیں کیا اور نہ ہی کبھی ہماری ہمسائیگی کی لاج رکھی ہے۔ باقی امریکہ تو نہ ہمارا ہمسایہ ہے اور نہ ہی مسلمان ہے بلکہ ایک کافر دھشت گرد ملک ہے جو کسی بھی رعایت کا مستحق نہیں۔


تازہ ترین


افکار و نظریات: google, print, voice, nation