نظامِ امامت یا؟
✍️: محمد بشیر دولتی


میں کئی سالوں سے قبلہ سید جواد نقوی کو سنتا اور پڑھتا آ رہا ہوں۔وہ میرے آج بھی پسندیدہ خطیب ہیں۔ ان کی دینی و علمی اور ثقافتی خدمات کا معترف ہوں۔ اس وقت ان کے کافی نظریات اور روش علمی نقد کے قابل ہیں ان پر پھر کبھی تفصیلی بات ہوگی۔میں نے انہیں بیس مارچ دوہزار تیئیس میں ""وطن کی فکر کر ناداں""کانفرنس کرتے دیکھا تھا ۔اس کانفرنس کی اہم بات حکومت پاکستان کی طرف سے شائع شدہ کتاب "پیام پاکستان" کی تشہیر تھی۔ موصوف مختلف کانفرنسوں میں اس کتاب کو سینے سے لگائے، ہاتھوں میں لئے ، اسے پڑھنے اور سمجھنے کی تبلیغ فرمایا کرتے تھے۔
محترم قارئین آپ بھی اس کتاب بارے کچھ جان لیجئے۔ مسلم لیگ نون کے پچھلے دور میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان محترم ممنون حسین صاحب کے زمانے میں ایک سیمینار "میثاق مدینہ" کے عنوان سے منعقد ہوا ۔ شاید یہ وہی دور تھا جس میں محترم نواز شریف کو امیرالمومنین بننے کا بڑا شوق چڑھا ہوا تھا۔ بقول استاد محترم کے اس سیمینار میں پورے پاکستان سے جید علماء و دانشور حضرات نے شرکت کی ۔ سیمینار کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میثاق مدینہ کی روشنی میں پاکستانی معاشرے کی تشکیل نو کی طرف قدم بڑھانا بتایا گیا تھا۔ بقول استادِ محترم! موجودہ صدر عارف علوی صاحب کی صدارت میں دوبارہ اس کتاب کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچایا گیا اور ادارہ تحقیقات اسلامی نے اسے چھاپا۔
استاد محترم کے بقول اس کتاب کے مسودے پر اٹھارہ سو علمائے کرام نے دستخط کئے۔ اس میں ہمارے سرور جناب بخاری (استاد کا نمائندہ) صاحب بھی پیش پیش تھے۔اسی کتاب کے صفحہ نمبر 16 پر لکھا ہوا ہے کہ "پاکستان کے بعض دشمن عناصر معصوم بچوں کو اس نعرے سے گمراہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں طاغوتی نظام رائج ہے"
جب میں نے استاد محترم کو اس کتاب کی تشہیر اور تبلیغ کرتے ہوئے دیکھا تو تعجب ہوا۔ اسی جلسے میں، میں نے استادِ محترم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "میں آئین پاکستان اور قانون پاکستان کو مانتا ہوں"۔
مجھے یوں لگا کہ اب استاد محترم تکفیری جماعتوں کا راستہ روکنے والوں کا ساتھ دیں گے، اور اپنی تنظیموں کی حمایت کریں گے۔ چونکہ اسی سال تکفیری گروہ نے متنازعہ بل کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی تھی ظاہر ہے اگر وہ قانون بنتا تو اسے بھی قبول کرلیا جاتا۔
پھر میں نے استاد محترم کو پاکستان کی واحد جمہوری تنظیم جو نہ فقط اپنے اندر جمہوریت رکھتی ہے بلکہ گزشتہ ستر سالوں سے جمہوری نظام کی حصہ دار ہے یعنی جماعت اسلامی کے ایک پروگرام میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ "پاکستان کی تمام تر مشکلات کا حل جماعت اسلامی کے پاس ہے"
میں نے استاد محترم کو پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے فوج کے حق میں ہونے والے جلسے میں مینار پاکستان پر پانچ منٹ کی تقریر میں سیاست دانوں اور فوج کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بھی سنا۔
پھر میں نے استاد محترم کو فلسطین مارچ میں یہ کہتے ہوئے بھی پایا کہ "اگر سراج الحق صاحب حکم دیں گے تو ہم غزہ جائیں گے، ایران کا کچھ کرنے کا موڈ نہیں ہے تو ہمیں راستہ دیں"
میں نے استاد محترم کو ببانگ دہل یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسرائیلیوں سنو پاکستانی فوج آرہی ہے۔
پھر حالیہ الیکشن میں جماعت اسلامی کی سائٹ پر دیکھا کہ استادِ محترم نے اس الیکشن میں ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جسے بعد میں ڈیلیٹ کردیا گیا۔ ان تمام باتوں سے مجھ جیسے لوگ سوچ رہے تھے کہ اس دفعہ انتخابات کے موقع پر استاد محترم کے چاہنے والے تند و تیز لہجے پر کنٹرول کرینگے، کسی عالم دین کی توہین نہیں کرینگے، کسی کو خمس خور اور جمہوری و طاغوتی قرار نہیں دیں گے اور رہبر معظم کے فتووں پر عمل کریں گے ۔
اس دفعہ اہلِ تشیع کی دونوں مذہبی و سیاسی جماعتیں تو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے نظر ائیں، بعض جگہوں پر مشترک امیدوار بھی دیکھنے کو ملے۔ بعض جگہوں پر تکفیریوں کا راستہ روکنے کے لئے متحد نظر آئے لیکن استاد محترم کے گروہ کواس مرتبہ بھی میں نے مسلسل اپنے ہی علماء کی توہین کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے کوئی ایک پوسٹ بھی دشمن یا تکفیریوں کے بارے میں نہیں کی ۔ یہی رویہ حشد شعبی کے خلاف عراق میں شیخ محمود صرخی اور لبنان میں حزب اللہ و امل کے خلاف شیخ صبحی طفیلی جیسوں کے پیروکاروں کا ہوا کرتا تھا۔
افسوس صد افسوس معروف علمی شخصیت حضرت آیت اللہ غلام عباس رئیسی جیسی شریف النفس علمی و عملی شخصیت کو بھی نہیں بخشا گیا۔ استادِ محترم کے حلقہ احباب سے گزارش ہے کہ یہ زمانہ جنگ نرم کے ذریعے افکار کو بدلنے کا ہے۔ ۔ فیس بک، انسٹاگرام ، ٹلیگرام، ایکس، یوٹیوب اور واٹساپ سمیت دیگر سوشل میڈیا کے ذرائع جنگی ہتھیاروں کا کام کرتے ہیں۔ آپ لوگ اپنی ہی شخصیات اور تنظیموں پر حملہ آور ہیں۔ ہماری تنظیمیں اور بزرگ شخصیات ہمارےپاور بینک ہیں، ہمیں انہیں نقصان پہنچانے سے گریز کرنا چاہیے۔
الیکشن اور ووٹنگ سمیت دیگر مسائل میں رہبر معظم ہمارے ملئے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کے فرمودات پر عمل کرتے ہوئے مجلس وحدت المسلمین کی سیاسی بصیرت، حکمت عملی، دور اندیشی اور وفاداری پر الگ کالم لکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی بہترین کارکردگی کے سبب تکفیری گروہوں میں صفِ ماتم بچھا ہوا ہے۔ ہمیں اپنے تیروں کا رُخ اُس طرف نہیں کرنا چاہیے کہ جس طرف تکفیریوں کے تیروں کا رُخ ہے۔ تکفیریوں کے ساتھ کندھا ملا کر اپنوں کے خلاف تیراندازی کرنا ،یہ نظامِ امامت ہے یا۔۔۔؟

فیڈ بیک


افکار و نظریات: news, twitter, islamic, face