ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے

ساخت وبلاگ
انسان نما بھیڑیے✍️: عارف بلتستانی[email protected]چارلی چیپلن نے کیا خوب کہا ہے ”ایک سیب گرا اور قانون کشش دریافت ہوگیا مگر افسوس کہ ہزاروں اجسام گرے اور انسان کبھی انسانیت دریافت نہ کرسکا۔ انسانیت آج زخموں سے چور چور ہے، اس سے خون رس رہا ہے ‘ وہ کراہ رہی ہے غم والم کے مارے رو رہی ہے۔ جس کا اتم مصداق غزہ ہے۔ میں اس کو سوچ کر محزون اور شش و پنج میں مبتلا تھا۔ آنسو آنکھوں کے حلقے سے نکل نکل کر رخساروں کو تر کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی اثنا میں میرا ذہن تخیل کے گھوڑے پر سوار ہوکر کربلائے عصر کی طرف سفر کرنے لگتا ہے۔ وہاں پہنچا ہی تھا کہ اچانک بلند و بالا عمارت مہیب آواز کے ساتھ ڈھ گئی۔ چارسو غبار پھیل گیا۔ میرا چہرہ فَق ہو گیا۔ جب اپنی طرف متوجہ ہوا تو حیران رہ گیا۔ وہ جگہ ملبوں کے ڈھیر میں بدل چکی تھی۔ میں وہاں ششدر تھا۔ عمارتیں ریزہ ریزہ ہوکر روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہی تھیں۔ گویا صحرا میں گھمسان کی لڑائی کے دوران ریت کا طوفان اٹھ رہا ہو۔ بالکل کربلا کے لق و دق صحرا کا منظر لگ رہا تھا۔تخیل کی وادی میں کھڑا سوچ رہا تھا۔ آج کا غزہ، اس صدی کی کربلا ہے جو اکسٹھ ہجری کی کربلا کا تکرار ہے۔ کل کے ہتھیار تیر و تبر، نیزہ و تلوار تھے۔ آج کا اسلحہ ٹینک و توپ ، لانچر و راکٹ اور ڈرون و میزائل ہیں۔کل صحرا کی ریت میں جل رہے تھے۔ آج توپوں کی تپش سے جل رہے ہیں۔ کل بھی پس پردہ یہودی لابی تھے۔ آج بھی پس پردہ اور پہلی صفوں میں یہودی لابی و سپاہی ہیں۔ کل بھی ناانصافی پر مبنی فوج تھی۔ آج بھی ناانصافی پر مبنی فوج ہے۔ کل بھی انسانی اور جنگی قوانین کا لحاظ نہیں رکھا گیا تھا۔ آج بھی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ سوچ وہی، لابی وہی، روش وہی، افراد میں خصوصیات وہی بس زمانہ اور چہرے بدل گئے ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 1 تاريخ : يکشنبه 9 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:35

ملالہ ، کردی ،امینی اور غزہتحریر:محمد بشیر دولتیایلان کردی کو کون نہیں جانتا۔ایلان تین سالہ ایک پھول جیسا شامی بچہ تھا۔اس کی تصویر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر چھاگئی تھی۔کوئی میڈیا چینل نہیں تھا جس نے ایلان کردی کے بارے میں آواز بلند نہ کی ہو۔ایلان کردی کو نہ کسی نے گولی ماری نہ کسی ملبے کے اندر دم گھٹ کے مرا تھا۔پھر بھی دنیا نے ہمدردی کا اظہار کیا مگر کیوں؟یہ 2 دسمبر 2015 کی بات ہے۔عبداللہ کردی استعمار کی لگائی آگ سے اپنے خاندان کو بچانے کے لئے شام سے نکلاتھا۔وہ آنکھوں میں اپنا خواب لے کر ترکی کے بحری راستے سے کینیڈا جانا چاہتا تھا۔داعش و استعمار کی آگ سے بھاگا خاندان سمندر کی بےرحم موجوں اور پانی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔عبداللہ نے اپنی بیوی سمیت پھول جیسے دوبچوں کو ہمیشہ کے لئے کھودیا۔ڈوگن نیوز ایجنسی کے مطابق ایلان کردی کی لاش ترکی کے تفریحی ساحل بورڈن سے ملی۔ یہ تصویر ترکی صحافی نیلوفر دیمی نے کھینچی تھی جس میں ننھا ایلان سمندر کنارے اوندھے منہ یوں لیٹا تھا جیسے اپنی ماں کے انتظار میں ابھی ابھی سویا ہو۔ یہ تصویر تقریبا تمام اخباروں میں چھپی۔ ترکی کے سمندر میں اب تک ہزاروں افراد زندگی کے سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوچکے ہیں۔ایان کردی کی موت پر ہر آنکھ نم اور ہر دل پُرملال ہوا۔انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر عالمی رہنماؤں تک،عالمی میڈیا سے لے کر مقامی پرنٹ میڈیا تک، اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین تک کے اجلاسوں میں اس بچے سے ہمدردی اور شامی حکومت کی مذمت کی گئی۔بی بی سی سے لے کر وائس آف امریکا تک،فاکس نیوز سے لے کر اسرائیلی میڈیا تک نے اس بچے سے ہمدردی اور شامی حکومت کی مذمت کی۔سب کے انسانی ہمدردی کی رگ یوں پھڑکی کہ اس کی پھڑپھڑاہٹ آج بھی سنائی دیتی ہ ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 1 تاريخ : يکشنبه 9 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:35

بزم انجم'>انجم رفیق انجم | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات بزم انجم رفیق انجم کی ڈائرییہ حادثہ آج 25 اپریل 2024 بروز جمعرات کو میرے ساتھ پیش آیا۔صبح 10:30 کی بات ہے۔اچانک بشیر دولتی صاحب کی زیارت ہوئی۔ ساتھ ہی عارف بلتستانی صاحب بھی آ دھمکے۔ کچھ ہی دیر میں استاد محترم نذر حافی صاحب بھی پہنچ گئے۔یعنی یہ سب حضرات جو دوسروں کو مہینوں مہینوں نہیں ملتے مجھے ایک دم مل گئے۔میں نے کہا چلیں اس حادثے سے آپ سب دوستوں کو بھی باخبر کرتا چلوں۔ساتھ یہ بھی بتانا تھا کہ بشیر دولتی صاحب نے اس مختصر ملاقات میں تحقیق اور تعلیم کے امتزاج پر کئی اہم نکات بیان کئے۔ انہوں نے شعور اور علم کی سطح بلند کرنے کیلئے سوشل میڈیا سے استفادے کی کئی جہتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ یہ سب حضرات ہوں اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کا ذکر نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ رہبر کے فرامین کی روشنی میں تحقیق کی اہمیت، لوازمات اور جدید زاویوں پر بھی بات ہوئی۔شریک محفل عارف بلتستانی صاحب بھی تھے۔ یہ وہی عارف بلتستانی ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے پاکستانی سینما اور شہید آوینی کے حوالے سے ایک بڑا جاندار کالم لکھا تھا۔ انہوں نے ٹیم ورک کرنے کی صلاحیت و افادیت پر بات کی۔ ان کے بقول موجودہ دور ٹیم ورک کا دور ہے۔ تحقیق ہو یا تعلیم، تبلیغ ہو یا تدریس ہر جگہ گروہی طریقہ کار ہی کامیاب ہے۔پھر بات پہنچی استاد محترم نذر حافی صاحب تک۔ انہوں نے تحقیق اور ٹیم ورک کے ساتھ وقت شناسی اور مخاطب شناسی کے حوالے سے بہت مفید نکات بیان کئے۔اب ہم بھی وہاں موجود تھے چنانچہ ہم سے بھی نہیں رہا گیا، سوچا کہ چلیں آج ہم بھی کچھ بات کر کے دیکھتے ہیں۔ہم نے پہلے تو تھوڑی دیر گلا صاف کیا، پانی پیا اور پھر دوبارہ پانی پیا اور پھر اور پانی پیا اور پھر سوچا ک ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 1 تاريخ : يکشنبه 9 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:35

ذرا سی لاپرواہیتحریر: ڈاکٹر اکرام الحق اعوانیہ میرے بچپن کی بات ہے۔ اللہ دتہ اپنے گھر بیٹھا، حقے کے کش لگانے میں مصروف تھا۔ اللہ دتہ کی بیوی”مہراں بی“ اگلے دن کی خوراک کا بندوبست کرنے کی خاطر دانے صاف کر رہی تھی۔ان دونوں کا چھ سالہ اکلوتا بیٹا ”طالب“ گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔۔۔۔کہ یکدم طالب نے زور دار چیخ ماری اور کانپنا شروع کر دیا۔۔۔۔اللہ دتہ اور مہراں دونوں اپنے بیٹے کی جانب لپکے، انہوں نے طالب کو چارپائی پر لٹایا اور اسکے بازوٗوں، ٹانگوں اور پیٹ کو سہلانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔طالب کا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن اس کے منہ سے آواز نہ نکل پا رہی تھی۔۔۔۔۔مہراں بھاگی بھاگی قریبی میڈیکل سٹو ر پر گئی اور وہاں موجود ڈسپنسر کے مشورے سے پیرا سیٹامول کی بوتل لا کر طالب کے منہ میں اس کی ایک چمچ انڈیل دی۔۔۔۔۔۔ لیکن طالب کی حالت میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہ ملی۔ مہراں نے وہ تمام گھریلو ٹوٹکے بھی آزما لئے جو اس سے پہلے اسکی دادی خود اس پر آزمایا کرتی تھی۔ لیکن آج کوئی ٹوٹکہ بھی اسکے کام نہ آسکا۔۔۔۔۔۔طالب کی حالت بگڑے گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ حالت سدھرنے کی بجائے مزید بگڑتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔اب تو طالب کو باقاعدہ دورے (fits)پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔۔جسم کپکپا رہا تھا اور ماتھے کا درجہ حرارت بھی بڑھ چکا تھا۔۔۔۔مہراں اور اللہ دتہ، دونوں کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔۔۔۔۔ کس سے مدد مانگیں۔۔۔۔۔اتنی دیر میں محلے والے بھی انکے گھر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ انکے گھر کے صحن میں اچھا خاصا رش لگ چکا تھا۔پرانا زمانہ تھا۔ خود غرضی کا ماحول نہ تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے کام آنے میں فرحت محسوس کر تے تھے۔۔۔۔۔۔ محلے کا کوئی شخص جا کر محلے کے و ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 5 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

ایک کالم ایک تبصرہ | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات ایک کالم ایک تبصرہآج نذر حافی صاحب کا کالم پڑھتے ہوئے مجھے اپنا ماضی یاد آگیا۔✍️/___سید فصیح کاظمی___/خصوصا جب کالم ختم ہوا تو میں کافی دیر تک اپنے پرائمری اسکول کے دوستوں اور اساتذہ کو یاد کرتا رہا۔ پوری کلاس میں اکیلا میں ہی شیعہ طالب علم تھا۔ مجھے کوئی سنی شیعہ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتی تھیں۔ صرف اتنا جانتا تھا کہ میرا تعلق ایک شیعہ خاندان سے ہے۔میرے کلاس فیلوز میں کچھ لڑکے جو ہمارے سکول کے اطراف میں ہی رہتے تھے وہ اہل تشیع کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کے بقول جو مولانا ان کی مسجد کے امام تھے وہ کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک ممبر تھے۔ اکثر وہ لڑکے شیعوں کی تکفیر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم سپاہ صحابہ والوں کا مقصد ہی شیعوں کو ختم کرنا ہے۔ چونکہ بچپن کا دور تھا ہم ایسی باتوں کو زیادہ دل پر نہیں لیتے تھے۔ ایک ساتھ کھیلنا کودنا جاری رہتا تھا۔ان کے بقول وہ مولوی صاحب شیعوں کے خلاف باقاعدہ ٹریننگ کر کے آئے تھے اور پہلے کسی ادارے میں بھی تھے جہاں وہ شیعہ ہونے کی وجہ سے معصوم لوگوں کو جیل میں ڈالتے تھے۔ایک لڑکا جو مولوی صاحب کے پاس قرآن پڑھتا تھا مولوی صاحب کی ٹریننگ کے بارے میں کہتا تھا کہ مولوی صاحب خاردار تاروں کو پاؤں کے پنجے اور انگلیوں کے اوپر کھڑے ہو کر کراس کیا کرتے تھے۔یوں ہی کافر کافر کھیلتے ہم ساتویں کلاس میں پہنچ گئے۔ وہی مولوی صاحب جس کے بارے میں یہ سب باتیں ہم نے سن رکھی تھیں ہمارے استاد کی شکل میں ہمارے سرکاری سکول میں اسلامیات پڑھانے آنے لگے۔ ہمارے سکول میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے مولوی صاحب کو بلایا جاتا تھا۔ سکول کا موجودہ سینئیر اسٹاف ہی ان کا ہم مسلک تھا لہذا وہ مولوی صاح ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 4 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

ریاست چاہیے تو نظریات بچائیےنذر حافی[email protected]اگر ہم واقعتاً اس ملک سے کرپشن اور شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا پڑے گاکہ آخر ہماری نئی نسل میدانِ عمل میں آتے ہی کرپشن کی شکار کیوں ہو جاتی ہے اور شدت پسندوں کی کے پیچھے کیوں چلنا شروع کر دیتی ہے!؟ہمارے دینی مدارس اور کالجز کے طالب علم طالبان، القاعدہ اور داعش کے نظریات سے کیسے متاثر ہوجاتےہیں!؟ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس وقت مسلک وہابیت اور مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب میں کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دیوبندی مکتب کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں بھی کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سعودی عرب یا ہندوستان میں اہلحدیث، دیوبندی اور وہابی مسالک کے لوگ کبھی بھی اسلحہ نہیں اٹھاتے ! کیوں آخر کیوں!؟اس کے لئے ہمیں اپنی درسی کتابوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے نصابِ تعلیم اور ماحول میں ایسا کیا ہے کہ ہم کرپٹ بھی ہیں اور شدّت پسند بھی؟سی ٹی ڈی صوبہ سندھ کے مطابق اس وقت مدارس کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلی تعلیم یافتہ طالبعلم لے رہے ہیں۔ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق پہلے جو مدارس سے پڑھتے تھے وہ افغانستان یا وزیرستان جا کر جہاد کرتے تھے لیکن اب یہ نئی کھیپ جامعات سے تعلیم یافتہ ہے اور انھوں نے یہ جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کراچی میں داعش کی موجود گی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس، گلشن اق ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 5 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

شیعہ عقائد اور حقائقنذر حافیPDFمغالطے کسی درد کا درمان نہیں کرتے۔ ہمارا مقصد کسی پروپیگنڈے کا جواب دینا یا جوابی پروپیگنڈہ ہرگز نہیں۔فقط حقائق کا انکشاف مقصود ہے۔صاحبانِ تحقیق بخوشی تحقیقی معیارات کے مطابق قلم فرسائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ ِ اسلام اور اہلِ تشیع ہم عمر ہیں۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں ہی صحابہ کرام کا ایک گروہ شیعانِ علی کہلاتا تھا۔ ابوحاتم رازی[1]، ابن خلدون[2]، محمد کردعلی[3]، صبحی صالح [4]، عبدالله عنّان [5]سمیت بہت سارے اہل سنت علما اور دانش مندوں نے لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی علیہ و آلہ کے زمانے میں ہی متعدد صحابہ کرام ؓ ؓ کو شیعیانِ علی کہاجاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے صحابہ کرام ؓ اُسی زمانے میں یہ جان گئے تھے کہ پیغمبرِ اسلام ؐ کی عدم موجودگی میں صرف حضرت علی ؑ ہی مسلمانوں کے سرپرست اور ولی ہیں۔ بطورِ خاص حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، مقداد بن اسوؓد، حضرت مالِكِ بنِ نوَيرَة، جابر بن عبداللهؓ، ابی بن کعبؓ، ابوالطفیل عامر بن واثلهؓ، عباس بن عبد المطلبؓ و اور ان کی تمام اولاد، عمار یاسرؓ ،ابو ایوب انصاریؓ ، أبى سعید الخدرى ، وحذیفة بن الیمان ، خزیمة بن ثابت ، خالد بن سعید بن العاص ، قیس بن سعد بن عُبادہ خَزرَجی کو شیعیان علیؑ میں سے جانا جاتا تھا۔[6] اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ نبیؐ کے زمانے میں ہی شیعیان علیؑ کا گروہ ہی نہیں تھا تو ہمیں خوشی ہو گی۔ نبی اکرمؐ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ گروہ نبی اکرمؐ کی احادیث اور تاکید کی روشنی میں حضرت امام علی ؑکی ولایت و امامت پر قائم رہا۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ کا مسئلہ پیش آیا تو اسی گروہ نے اربابِ اقتدار کے مدِّ مقابل مزاحمتی کردار اداکیا۔ ہم نہایت ہی فراخدلی کے ساتھ یہ ت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 22 تاريخ : جمعه 10 فروردين 1403 ساعت: 14:13

اہلِ تشیع کا عقیدہ امامت اورکچھ مشہور غلط فہمیاںنذر حافیحاجی ذوالفقار علی صاحب امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کا ایک آدھ سال پہلے غائبانہ تعارف ہوا۔اس دوران گاہے بگاہے تاریخ اسلام کے حوالے سے ان کی آرا اور نکتہ نظر آڈیوز کی صورت میں سنتا رہا۔ مجھے اکثر ایسی معلوماتی اور منفرد آڈیوز بھیجنے کا کار خیر محترم یوسف رضا دھنیالہ صاحب انجام دیتے رہتے ہیں۔یوں سال بھر ہمارے درمیان ایک غیر اعلانیہ مکالمہ، تبادلہ فکر اور نظریاتی تعامل جاری رہتا ہے۔انسانی معاشرے میں باہمی تعامل ایک لازمی امر ہے۔ اس تعامل کے رُشد، ارتقا اور نکھار کیلئے ایک دوسرے کے اخلاق، رویّوں، عقائد، آداب ، رسومات اور نظریات سے درست آشنائی ضروری ہے۔گزشتہ روز محترم حاجی ذوالفقار صاحب نے اہلِ تشیع کے عقائد کے عقیدہ امامت کے حوالے سے چند ایسے سوالات کئے کہ میں ششدر رہ گیا۔ حاجی صاحب کی تاریخِ اسلام پر اچھی خاصی دسترس ہے۔ میں یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ان جیسے آدمی کو کسی نے شیعہ عقائد کے حوالے سے جو بھی بتایا ہے وہ غلط بتایا ہے۔ ظاہر ہے غلط معلومات کی کوکھ سے غلط فہمیاں ہی جنم لیتی ہیں۔میں نے اُن کے لئے جہاں آڈیو میسج میں وضاحت پیش کی وہیں اس وضاحت کو مکتوب بھی کر رہا ہوں تاکہ ہمارا یہ مکالمہ بصورت سند محفوظ رہے۔ حوالہ جات کے ساتھ اس مضمون کو آپ مفصّل انداز میں اسلام ٹائمز پر پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں فقط اُس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ابتدا میں ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امامت کو شیعہ اپنے بنیادی عقائد یعنی اصول دین میں شامل کرتے ہیں۔ شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ نبیؐ نے جہاں اپنے بعد بارہ اماموں کے بارے میں بتایا ہے وہیں یہ بھی فرمایا ہے کہ جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا وہ جہالت کی موت مرا۔یہ حدیث اہلِ سُنّت اور اہلِ تشیع یعن ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 27 تاريخ : جمعه 10 فروردين 1403 ساعت: 14:13

ہمارا بڑا مسئلہ | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات ہمارا بڑا مسئلہنذر حافیایچی سن کالج کے پرنسپل مسٹر مائیکل تھامسن کے استعفے پر آپ کی نظر ہوگی۔ اسٹاف کے نام انہوں نے اپنے لکھے خط میں کہا ہے کہ بورڈ کی سطح پر جو ہو رہا ہے، وہ آپ سب کو معلوم ہے۔ انتہائی بری گورننس کے تسلسل کی وجہ سے میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں ۔ ایک وفاقی وزیر کے بچوں کے جرمانہ معافی معاملے پر اختلافات کے بعد یہ سب ہوا ہے۔ آسٹریلوی نژاد مائیکل تھامسن کو آخر حق کیا پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے وطن کی گورننس پر بات کریں؟اگر گورننس ہی دیکھنی ہے تو عوام پر ٹیکس لگانے کی ہماری گورننس دیکھیں۔ اپنے گھر میں اب بور کھود کر پانی نکالنے پر بھی ٹیکس لگ چکا ہے، بجلی کا میٹر آپ اپنا بھی خرید کر لگائیں تو وہ گویا آپ نے کرائے پر لیا ہے، اُس کا بھی ماہانہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ۔۔مزید گورننس کسے کہتے ہیں؟ابھی گزشتہ روز ہی ۲۷ لاکھ پاکستانیوں کا ڈیٹا نادرا سے چوری ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ ڈیٹا چوری میں ملتان، پشاور اور کراچی کے نادرا دفاتر ملوث پائے گئے۔ یہ چوری شُدہ ڈیٹا ملتان سے پشاور اور پھر دبئی گیا، نادرا ڈیٹا کے ارجنٹائن اور رومانیہ میں فروخت ہونے کے شواہد بھی ملے۔اب ایسے کاروبار ہماری بیوروکریسی اور اشرافیہ تھوڑے کرتی ہے۔ان چیزوں کا گورننس سے آخر کیا تعلق ہے؟گزشتہ کئی سالوں سے تفتان بارڈر کے حوالے سے عوام کو یہ پریشانی ہے کہ بارڈر پر ہمارا ڈیٹا جمع کرنے والے سرکاری کارندوں کا لوگوں کے ساتھ برتاو اور ڈیٹا جمع آوری کا طریقہ کار انتہائی ناقص ہے۔ عوامی شکایات پر کسی نے توجہ نہیں دی اور نہ ہی دی جانی چاہیے۔ ڈیٹا چوری ہونے کا خدشہ ظاہر کرنے والوں کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ آج ہی ایران میں اغواء ہونے والے تین پاکستانیو ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 22 تاريخ : جمعه 10 فروردين 1403 ساعت: 14:13

انتخابات کے بعد!اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہوشیار باش ✍️: عارف بلتستانیبقا اور ارتقا کےلئے مزاحمت ضروری ہے۔ مزاحمت کیلئے امتحان، دشمن اور مشکلات چاہیے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ دشمن ، امتحانات اور مشکلات سے برسر پیکار رہے۔ کسی بھی صورت میں مزاحمت سے ہاتھ نہ اٹھائے۔ مزاحمت سے ہاتھ اٹھانا یعنی زوال اور شکست کے لئے راضی ہونا۔ وہ دشمن چاہے داخلی ہو یا خارجی، دشمن، دشمن ہی ہوتا ہے۔دشمن کو کبھی اپنا ولی، حاکم اور آقا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ عقل انسانی کے منافی ہے۔ پاکستانی جب مسلمان ہیں اور ایک قوم ہیں تو پھر وہ کیسے اپنے دشمنوں کو اپنا آقا مان سکتے ہیں؟۔ مسلمانوں اور پاکستانیوں کے دشمن مسلمان فرقے نہیں بلکہ یہود و نصاری اور ہنود نیز انکے چیلے ہیں جو آج بھی وطن عزیز میں مسلکی اور مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ہمارے دشمن اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ، جب تک ہم انہی میں سے ایک نہ ہو جائیں یا ان کے نقشِ قدم پر نہ چل پڑیں۔ مسلمانوں نے آخری چند صدیوں میں جہاد و مزاحمت سے ہاتھ اٹھایا ہے تو تمدن اسلامی پر تمدن اٹلانٹک (غرب) نے غلبہ حاصل کر لیا ۔ اس موضوع پر "مقاومت اور مقاومتی بلاک" نامی کالم میں ہم نے تفصیلی بحث کی ہے۔اس کالم میں ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ امریکہ رو بہ زوال ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ وہ اب منطقے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس لیے رجیم چینج کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسی صورت حال میں پالیسی ساز شخصیات، ادارے اور عوام کو چاہیئے کہ اسی کا ساتھ دیں، جو امریکہ مخالف پالیسی رکھتا ہو اور سوچنا بھی چاہیئے کہ تمدن اسلامی کے بجائے تمدن غرب کی بقا کے لئے کیوں جنگ لڑ رہے ہیں۔؟ لیکن یہ یاد رکھئے کہ جس نے بھی امریکہ کی خ ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 29 تاريخ : دوشنبه 30 بهمن 1402 ساعت: 14:30