امام جعفر صادقؑ

ساخت وبلاگ

پرورشِ فکر اور امام جعفر صادقؑ

نذر حافی

یہ پہلی صدی ہجری کا آخری حصّہ تھا۔ مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کو ایک علمی مشکل پیش آئی۔ مُفَضَّل خود بھی بڑی برجستہ علمی شخصیت تھے۔ہوا کچھ یوں کہ ملحدین کی جماعت کے ایک بڑے علمبردار" ابن ابی‌العوجاء" نے مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کو ایک روز قبرِ نبیؐ پر آ لیا۔ ابن ابی‌العوجاء نے خدا کے وجود اور توحید پر اس شرط کے ساتھ سوال اٹھایا کہ جواب انتہائی غیرجانبداری اور متانت کے ساتھ دیا جائے۔

اب مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کو ابن ابی‌العوجاء کی شخصیت کے مطابق مدلل جوابات چاہیے تھے۔ مُفَضَّل بن عُمر جُعفی سوالات لے کر حضرت امام جعفر صادق ؑکے ہاں حاضر ہوئے۔ حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اپنی مصروفیات کے پیشِ نظر مُفَضَّل بن عُمر جُعفی سے اگلے روز آنے کو کہا۔ اس کے بعد اگلے مسلسل چار دن آپ نے توحید کے متعلق مُفَضَّل کے سوالات سُنے اور اُن کے جوابات مُفَضَّل کو لکھوائے۔ یوں سمجھئے کہ یہ مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کی کلاس نہیں بلکہ توحید کے موضوع پر ایک مکمل ورکشاپ تھی۔

اس ورکشاپ میں نقلی دلائل کے بجائے جہان کی خلقت اور اس میں پائے جانے والے اسرار و رموز کو کھول کر رکھ دیا گیا۔ مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کو امام نے لکھنے کیلئے کہا تاکہ قیامت تک کا کوئی قاری جب اس کتاب کو پڑھے تو غور وفکر کی صلاحیّت کا استعمال کر کے خدا کے وجود ، اس کی حکمت اور اُس کی قدرت کو با آسانی پرکھ سکے ۔

کتاب کے پہلے باب میں اُن سوالات کا جواب دیا گیا ہے، جن کی وجہ سے کوئی شخص خدا کا انکار کرتا ہے۔ پہلے باب میں منکرین خدا کو دنیا کی تخلیق کے مفروضات، انسان کی تخلیق کی انفرادیت اور انسانی جسم کے اعضاء مثلاً نظام ہضم اور حواسِ خمسہ کی باریکیاں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اس سے یہ جاننے کی دعوت دی گئی ہے کہ کیا ایسا حکمت آمیز نظام بغیر کسی دانا و بینا خالق کے وجود میں آ سکتا ہے اور اس اطرح کامیابی کے ساتھ چل سکتا ہے!؟

کتاب کے دوسرے باب میں جانوروں میں پائی جانے والی عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وضاحت کی گئی۔ اس میں رینگنے والے کیڑے مکوڑوں جیسے سانپ اور چوہے سے لے کر ہاتھی، زرافے، بندر اور کتے سمیت مختلف پرندوں جیسے مرغیاں اور چمگادڑ، نیز شہد کی مکھی، ٹڈی ، چیونٹی اور آبی مخلوقات مثلا مچھلیوں کی ساخت، بناوٹ، غذا، شکار کرنے وغیرہ وغیرہ کو ایک آئینے کی مانند دکھایا گیا ہے۔ اس آئینے میں جھانکنے والا بخوبی یہ دیکھ سکتا ہے کہ جانوروں کے وجود اور زندگی کے شب و روز میں ایسے حیرت انگیز عجائبات پائے جاتے ہیں کہ جو ایک مدبر و دانا ، قادر و یکتا خالق و مدیر پر دلالت کرتے ہیں۔

کتاب کا تیسرا باب اس کائنات پر حاکم قوانین سے پردہ اٹھاتا ہے۔اس میں قاری کو دعوتِ فکر دی گئی ہے کہ وہ آسمان کے وجود کے بارے میں سوچے، ستاروں کی رنگت، سورج کے طلوع و غروب، سال کے موسموں،سورج چاند اور دیگر ستاروں کی گردش اور زمین پر ان کے اثرات کا جائزہ لے کر یہ سوچے کہ کیسے یہ ساری کہکشائیں، اور اجرامِ فلکی جسدِ واحد کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں اور ایک دوسرے سے اپنا فاصلہ بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔

کتاب کے چوتھے باب میں بنیادی طور پر اس دنیا کے ارتقا میں انسان کا کردار بیان ہوا ہے۔ انسانی زندگی میں آفات، حادثات، امتحانات، مصائب، مشکلات، موت اور مرنے میں پوشیدہ دانائی سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ اس باب میں انسان کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس جہان اور کائنات کے ساتھ اپنے تعلق اور رشتے کو اپنی عقل کے ترازو پر تولے۔ وہ اس جہان کو اگر مصیبتوں، مشکلات اور امتحانات سے الگ کر کے دیکھے تو اُسے سمجھ آئے گی کہ ان حادثات و امتحانات میں بھی کتنی بڑی حکمت ہے۔ پس اس کائنات کے ارتقا میں زندگی و موت، حادثات و اتفاقات، مسائل و مشکلات کا حکیمانہ کردار یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک ایسا مدبر اور دانا ہے کہ جس کی مدیریت و دانائی اس کائنات کے ذرّے ذرّے سے ٹپکتی ہے۔

اس کتاب کے دلائل فکر کو جھنجوڑتے ہیں۔ یہ کتاب لکیر کا فقیر بننے کے بجائے فکر کرنے کی دعو ت دیتی ہے۔ اس میں اتنی مرتبہ دعوتِ فکر دی گئی کہ اس کتاب کا نام ہی کتاب فَکِّرمشہور ہو گیا۔ جہانِ اسلام میں اسے توحیدِ مُفَضَّل کہتے ہیں۔

ویسے لمحہ فکریہ ہےکہ ہم نے وطنِ عزیز میں "توحید کے نام پر" جتنے لوگوں کی تکفیر کی اور ان کے خلاف کفر کے فتوے دئیے ، اگر اُس کی جگہ ہم عوام النّاس کو اسی کتاب کے مطالعے کی دعوت دیتے تو ہم بحیثیت قوم اپنا نام دہشت گردوں کے بجائے صاحبانِ علم اور باشعور اقوام کی فہرست میں لکھوا سکتے تھے۔

یہ کتاب دینی معاملات میں مخالفین کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگانے، ناروا تہمتیں ایجاد کرنے اور من گھڑت الزامات تراشنے کے بجائے دلیل کی عظمت کو واضح کرتی ہے۔کوئی بھی مدلل مکتب اپنی طاقت کا اظہار راستہ بند کرو، جلاو گھراو، مارو مارو اور کافر کافر سے نہیں کرتا۔ ایک علمی مکتب کی طاقت دو جملوں میں پوشیدہ ہے، ایک سَلُونِی،سَلُونِی﴿ سوال کرو! سوال کرو﴾ اور دوسرے فَکِّر، فَکِّر﴿ سوچو! سوچو!﴾۔

امام جعفر صادق ؑ کے مکتب کا اُسلوب " سَلُونِی،سَلُونِی" اور" فَکِّر، فَکِّر" ہے۔ یہی وہ اُسلوب ہے جس سے حضرت امام ابوحنیفہ ؒاور حضرت مالک بن انسؒ جیسی شخصیات حضرت امام جعفر صادقؑ کے مکتب سے جُڑی ہوئی تھیں، اور یہی وہ روِش ہے جو جہانِ اسلام کو آج بھی حقیقی عظمت دلا سکتی ہے۔

اگر کسی دینی مدرسے یا مکتب کے ہمراہ تفکر اور سوچ و بچار نہیں تو بقولِ اقبال:

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا

کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ

فیڈ بیک

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 7 تاريخ : دوشنبه 17 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:48