ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے

ساخت وبلاگ

1. فکری یکسوئی

2. اجتماعی مسائل

3. مقالہ جات

4. افہام و تفہیم

5. معقول بیانیہ

6. دین اور انسان

7. علمی مذاکرہ

8. نقد و نظر

9. نظریاتی تعامل

10. جذبات و احساسات

پیغامِ اقبال

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 3 تاريخ : دوشنبه 17 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:48

یکم مئی ۔۔۔  مجھے مزدور کے بچوں کو پڑھانا ہے | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات یکم مئی ۔۔۔مجھے مزدور کے بچوں کو پڑھانا ہےنذر حافییکم مئی کو بعض ممالک میں دو مناسبتیں منائی جاتی ہیں۔ ایک یومِ مزدور اور دوسرے یومِ معلّم۔ دنیا میں یومِ مزدور کی ابتدا ۱۸۸۶ سے ہوئی۔یہ صنعتی انقلاب کا دور تھا۔ انسانوں سے بھی بطورِ صنعت کام لیا جانے لگا۔مزدوروں نے کام کے اوقات کو اٹھارہ گھنٹوں کے بجائے آٹھ گھنٹوں تک محدود کرنے کا مطالبہ کیا۔جب اشرافیہ نے کان نہیں دھرے تو مطالبہ احتجاج میں بدل گیا۔ طاقتوروں نے بزورِ طاقت مزدوروں کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا۔حسبِ معمول پولیس کی مقدّس وردی کو غریب مزدوروں کا خون بہانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ بھوک اورمشقّت کے مارے ہوئے سینوں سے رائفلوں کی سنگینیں ٹکرائیں۔ پیاسے لبوں کو گرما گرم گولیوں سے سیراب کیا گیا۔ کئی مزدور موقع پر ہی جاں بحق اور زخمی ہوئے اور کئی کو بعد ازاں پھانسیاں دی گئیں۔ہمارے ہاں یوم مزدور منانے کا آغاز متحدہ ہندوستان کے دور میں ہوا۔ یکم مئی 1923 کو مزدور کسان پارٹی نے مدراس میں اس کی ابتدا کی۔ آج یکم مئی ۲۰۲۴ کو وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ " پاکستان اس وقت معاشی طور پر نازک دور سے گزر رہا ہے اور مجھے اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ موجودہ مہنگائی نے ہمارے مزدور طبقے کو سب سے ذیادہ متاثر کیا ہے۔ حکومت خصوصی سبسڈیز، سماجی تحفظ اور تخفیفِ غربت کے پروگراموں کے ذریعے اپنے معاشی طور پر کمزور ہم وطنوں کی مشکلات کے ازالے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ ہم بہتر اور کم لاگت رہائش، مفت تعلیم و صحت اور سماجی تحفظ کے اقدامات کے ذریعے اپنے مزدوروں کی فلاح و بہبود کو مزید فروغ دے کر ان کے حالاتِ زندگی کو بہتر بن ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 2 تاريخ : دوشنبه 17 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:48

پرورشِ فکر اور امام جعفر صادقؑنذر حافییہ پہلی صدی ہجری کا آخری حصّہ تھا۔ مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کو ایک علمی مشکل پیش آئی۔ مُفَضَّل خود بھی بڑی برجستہ علمی شخصیت تھے۔ہوا کچھ یوں کہ ملحدین کی جماعت کے ایک بڑے علمبردار" ابن ابی‌العوجاء" نے مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کو ایک روز قبرِ نبیؐ پر آ لیا۔ ابن ابی‌العوجاء نے خدا کے وجود اور توحید پر اس شرط کے ساتھ سوال اٹھایا کہ جواب انتہائی غیرجانبداری اور متانت کے ساتھ دیا جائے۔اب مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کو ابن ابی‌العوجاء کی شخصیت کے مطابق مدلل جوابات چاہیے تھے۔ مُفَضَّل بن عُمر جُعفی سوالات لے کر حضرت امام جعفر صادق ؑکے ہاں حاضر ہوئے۔ حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اپنی مصروفیات کے پیشِ نظر مُفَضَّل بن عُمر جُعفی سے اگلے روز آنے کو کہا۔ اس کے بعد اگلے مسلسل چار دن آپ نے توحید کے متعلق مُفَضَّل کے سوالات سُنے اور اُن کے جوابات مُفَضَّل کو لکھوائے۔ یوں سمجھئے کہ یہ مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کی کلاس نہیں بلکہ توحید کے موضوع پر ایک مکمل ورکشاپ تھی۔اس ورکشاپ میں نقلی دلائل کے بجائے جہان کی خلقت اور اس میں پائے جانے والے اسرار و رموز کو کھول کر رکھ دیا گیا۔ مُفَضَّل بن عُمر جُعفی کو امام نے لکھنے کیلئے کہا تاکہ قیامت تک کا کوئی قاری جب اس کتاب کو پڑھے تو غور وفکر کی صلاحیّت کا استعمال کر کے خدا کے وجود ، اس کی حکمت اور اُس کی قدرت کو با آسانی پرکھ سکے ۔کتاب کے پہلے باب میں اُن سوالات کا جواب دیا گیا ہے، جن کی وجہ سے کوئی شخص خدا کا انکار کرتا ہے۔ پہلے باب میں منکرین خدا کو دنیا کی تخلیق کے مفروضات، انسان کی تخلیق کی انفرادیت اور انسانی جسم کے اعضاء مثلاً نظام ہضم اور حواسِ خمسہ کی باریکیاں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اس سے یہ جاننے کی دعوت دی گئی ہے ک ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 1 تاريخ : دوشنبه 17 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:48

انسان نما بھیڑیے✍️: عارف بلتستانی[email protected]چارلی چیپلن نے کیا خوب کہا ہے ”ایک سیب گرا اور قانون کشش دریافت ہوگیا مگر افسوس کہ ہزاروں اجسام گرے اور انسان کبھی انسانیت دریافت نہ کرسکا۔ انسانیت آج زخموں سے چور چور ہے، اس سے خون رس رہا ہے ‘ وہ کراہ رہی ہے غم والم کے مارے رو رہی ہے۔ جس کا اتم مصداق غزہ ہے۔ میں اس کو سوچ کر محزون اور شش و پنج میں مبتلا تھا۔ آنسو آنکھوں کے حلقے سے نکل نکل کر رخساروں کو تر کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی اثنا میں میرا ذہن تخیل کے گھوڑے پر سوار ہوکر کربلائے عصر کی طرف سفر کرنے لگتا ہے۔ وہاں پہنچا ہی تھا کہ اچانک بلند و بالا عمارت مہیب آواز کے ساتھ ڈھ گئی۔ چارسو غبار پھیل گیا۔ میرا چہرہ فَق ہو گیا۔ جب اپنی طرف متوجہ ہوا تو حیران رہ گیا۔ وہ جگہ ملبوں کے ڈھیر میں بدل چکی تھی۔ میں وہاں ششدر تھا۔ عمارتیں ریزہ ریزہ ہوکر روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہی تھیں۔ گویا صحرا میں گھمسان کی لڑائی کے دوران ریت کا طوفان اٹھ رہا ہو۔ بالکل کربلا کے لق و دق صحرا کا منظر لگ رہا تھا۔تخیل کی وادی میں کھڑا سوچ رہا تھا۔ آج کا غزہ، اس صدی کی کربلا ہے جو اکسٹھ ہجری کی کربلا کا تکرار ہے۔ کل کے ہتھیار تیر و تبر، نیزہ و تلوار تھے۔ آج کا اسلحہ ٹینک و توپ ، لانچر و راکٹ اور ڈرون و میزائل ہیں۔کل صحرا کی ریت میں جل رہے تھے۔ آج توپوں کی تپش سے جل رہے ہیں۔ کل بھی پس پردہ یہودی لابی تھے۔ آج بھی پس پردہ اور پہلی صفوں میں یہودی لابی و سپاہی ہیں۔ کل بھی ناانصافی پر مبنی فوج تھی۔ آج بھی ناانصافی پر مبنی فوج ہے۔ کل بھی انسانی اور جنگی قوانین کا لحاظ نہیں رکھا گیا تھا۔ آج بھی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ سوچ وہی، لابی وہی، روش وہی، افراد میں خصوصیات وہی بس زمانہ اور چہرے بدل گئے ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 3 تاريخ : يکشنبه 9 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:35

ملالہ ، کردی ،امینی اور غزہتحریر:محمد بشیر دولتیایلان کردی کو کون نہیں جانتا۔ایلان تین سالہ ایک پھول جیسا شامی بچہ تھا۔اس کی تصویر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر چھاگئی تھی۔کوئی میڈیا چینل نہیں تھا جس نے ایلان کردی کے بارے میں آواز بلند نہ کی ہو۔ایلان کردی کو نہ کسی نے گولی ماری نہ کسی ملبے کے اندر دم گھٹ کے مرا تھا۔پھر بھی دنیا نے ہمدردی کا اظہار کیا مگر کیوں؟یہ 2 دسمبر 2015 کی بات ہے۔عبداللہ کردی استعمار کی لگائی آگ سے اپنے خاندان کو بچانے کے لئے شام سے نکلاتھا۔وہ آنکھوں میں اپنا خواب لے کر ترکی کے بحری راستے سے کینیڈا جانا چاہتا تھا۔داعش و استعمار کی آگ سے بھاگا خاندان سمندر کی بےرحم موجوں اور پانی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔عبداللہ نے اپنی بیوی سمیت پھول جیسے دوبچوں کو ہمیشہ کے لئے کھودیا۔ڈوگن نیوز ایجنسی کے مطابق ایلان کردی کی لاش ترکی کے تفریحی ساحل بورڈن سے ملی۔ یہ تصویر ترکی صحافی نیلوفر دیمی نے کھینچی تھی جس میں ننھا ایلان سمندر کنارے اوندھے منہ یوں لیٹا تھا جیسے اپنی ماں کے انتظار میں ابھی ابھی سویا ہو۔ یہ تصویر تقریبا تمام اخباروں میں چھپی۔ ترکی کے سمندر میں اب تک ہزاروں افراد زندگی کے سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوچکے ہیں۔ایان کردی کی موت پر ہر آنکھ نم اور ہر دل پُرملال ہوا۔انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر عالمی رہنماؤں تک،عالمی میڈیا سے لے کر مقامی پرنٹ میڈیا تک، اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین تک کے اجلاسوں میں اس بچے سے ہمدردی اور شامی حکومت کی مذمت کی گئی۔بی بی سی سے لے کر وائس آف امریکا تک،فاکس نیوز سے لے کر اسرائیلی میڈیا تک نے اس بچے سے ہمدردی اور شامی حکومت کی مذمت کی۔سب کے انسانی ہمدردی کی رگ یوں پھڑکی کہ اس کی پھڑپھڑاہٹ آج بھی سنائی دیتی ہ ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 3 تاريخ : يکشنبه 9 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:35

بزم انجم'>انجم رفیق انجم | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات بزم انجم رفیق انجم کی ڈائرییہ حادثہ آج 25 اپریل 2024 بروز جمعرات کو میرے ساتھ پیش آیا۔صبح 10:30 کی بات ہے۔اچانک بشیر دولتی صاحب کی زیارت ہوئی۔ ساتھ ہی عارف بلتستانی صاحب بھی آ دھمکے۔ کچھ ہی دیر میں استاد محترم نذر حافی صاحب بھی پہنچ گئے۔یعنی یہ سب حضرات جو دوسروں کو مہینوں مہینوں نہیں ملتے مجھے ایک دم مل گئے۔میں نے کہا چلیں اس حادثے سے آپ سب دوستوں کو بھی باخبر کرتا چلوں۔ساتھ یہ بھی بتانا تھا کہ بشیر دولتی صاحب نے اس مختصر ملاقات میں تحقیق اور تعلیم کے امتزاج پر کئی اہم نکات بیان کئے۔ انہوں نے شعور اور علم کی سطح بلند کرنے کیلئے سوشل میڈیا سے استفادے کی کئی جہتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ یہ سب حضرات ہوں اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کا ذکر نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ رہبر کے فرامین کی روشنی میں تحقیق کی اہمیت، لوازمات اور جدید زاویوں پر بھی بات ہوئی۔شریک محفل عارف بلتستانی صاحب بھی تھے۔ یہ وہی عارف بلتستانی ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے پاکستانی سینما اور شہید آوینی کے حوالے سے ایک بڑا جاندار کالم لکھا تھا۔ انہوں نے ٹیم ورک کرنے کی صلاحیت و افادیت پر بات کی۔ ان کے بقول موجودہ دور ٹیم ورک کا دور ہے۔ تحقیق ہو یا تعلیم، تبلیغ ہو یا تدریس ہر جگہ گروہی طریقہ کار ہی کامیاب ہے۔پھر بات پہنچی استاد محترم نذر حافی صاحب تک۔ انہوں نے تحقیق اور ٹیم ورک کے ساتھ وقت شناسی اور مخاطب شناسی کے حوالے سے بہت مفید نکات بیان کئے۔اب ہم بھی وہاں موجود تھے چنانچہ ہم سے بھی نہیں رہا گیا، سوچا کہ چلیں آج ہم بھی کچھ بات کر کے دیکھتے ہیں۔ہم نے پہلے تو تھوڑی دیر گلا صاف کیا، پانی پیا اور پھر دوبارہ پانی پیا اور پھر اور پانی پیا اور پھر سوچا ک ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 2 تاريخ : يکشنبه 9 ارديبهشت 1403 ساعت: 16:35

ذرا سی لاپرواہیتحریر: ڈاکٹر اکرام الحق اعوانیہ میرے بچپن کی بات ہے۔ اللہ دتہ اپنے گھر بیٹھا، حقے کے کش لگانے میں مصروف تھا۔ اللہ دتہ کی بیوی”مہراں بی“ اگلے دن کی خوراک کا بندوبست کرنے کی خاطر دانے صاف کر رہی تھی۔ان دونوں کا چھ سالہ اکلوتا بیٹا ”طالب“ گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔۔۔۔کہ یکدم طالب نے زور دار چیخ ماری اور کانپنا شروع کر دیا۔۔۔۔اللہ دتہ اور مہراں دونوں اپنے بیٹے کی جانب لپکے، انہوں نے طالب کو چارپائی پر لٹایا اور اسکے بازوٗوں، ٹانگوں اور پیٹ کو سہلانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔طالب کا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن اس کے منہ سے آواز نہ نکل پا رہی تھی۔۔۔۔۔مہراں بھاگی بھاگی قریبی میڈیکل سٹو ر پر گئی اور وہاں موجود ڈسپنسر کے مشورے سے پیرا سیٹامول کی بوتل لا کر طالب کے منہ میں اس کی ایک چمچ انڈیل دی۔۔۔۔۔۔ لیکن طالب کی حالت میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہ ملی۔ مہراں نے وہ تمام گھریلو ٹوٹکے بھی آزما لئے جو اس سے پہلے اسکی دادی خود اس پر آزمایا کرتی تھی۔ لیکن آج کوئی ٹوٹکہ بھی اسکے کام نہ آسکا۔۔۔۔۔۔طالب کی حالت بگڑے گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ حالت سدھرنے کی بجائے مزید بگڑتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔اب تو طالب کو باقاعدہ دورے (fits)پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔۔جسم کپکپا رہا تھا اور ماتھے کا درجہ حرارت بھی بڑھ چکا تھا۔۔۔۔مہراں اور اللہ دتہ، دونوں کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔۔۔۔۔ کس سے مدد مانگیں۔۔۔۔۔اتنی دیر میں محلے والے بھی انکے گھر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ انکے گھر کے صحن میں اچھا خاصا رش لگ چکا تھا۔پرانا زمانہ تھا۔ خود غرضی کا ماحول نہ تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے کام آنے میں فرحت محسوس کر تے تھے۔۔۔۔۔۔ محلے کا کوئی شخص جا کر محلے کے و ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 6 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

ایک کالم ایک تبصرہ | | Voice of Nation مرکز مطالعات و تحقیقات ایک کالم ایک تبصرہآج نذر حافی صاحب کا کالم پڑھتے ہوئے مجھے اپنا ماضی یاد آگیا۔✍️/___سید فصیح کاظمی___/خصوصا جب کالم ختم ہوا تو میں کافی دیر تک اپنے پرائمری اسکول کے دوستوں اور اساتذہ کو یاد کرتا رہا۔ پوری کلاس میں اکیلا میں ہی شیعہ طالب علم تھا۔ مجھے کوئی سنی شیعہ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتی تھیں۔ صرف اتنا جانتا تھا کہ میرا تعلق ایک شیعہ خاندان سے ہے۔میرے کلاس فیلوز میں کچھ لڑکے جو ہمارے سکول کے اطراف میں ہی رہتے تھے وہ اہل تشیع کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کیا کرتے تھے۔ ان کے بقول جو مولانا ان کی مسجد کے امام تھے وہ کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک ممبر تھے۔ اکثر وہ لڑکے شیعوں کی تکفیر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم سپاہ صحابہ والوں کا مقصد ہی شیعوں کو ختم کرنا ہے۔ چونکہ بچپن کا دور تھا ہم ایسی باتوں کو زیادہ دل پر نہیں لیتے تھے۔ ایک ساتھ کھیلنا کودنا جاری رہتا تھا۔ان کے بقول وہ مولوی صاحب شیعوں کے خلاف باقاعدہ ٹریننگ کر کے آئے تھے اور پہلے کسی ادارے میں بھی تھے جہاں وہ شیعہ ہونے کی وجہ سے معصوم لوگوں کو جیل میں ڈالتے تھے۔ایک لڑکا جو مولوی صاحب کے پاس قرآن پڑھتا تھا مولوی صاحب کی ٹریننگ کے بارے میں کہتا تھا کہ مولوی صاحب خاردار تاروں کو پاؤں کے پنجے اور انگلیوں کے اوپر کھڑے ہو کر کراس کیا کرتے تھے۔یوں ہی کافر کافر کھیلتے ہم ساتویں کلاس میں پہنچ گئے۔ وہی مولوی صاحب جس کے بارے میں یہ سب باتیں ہم نے سن رکھی تھیں ہمارے استاد کی شکل میں ہمارے سرکاری سکول میں اسلامیات پڑھانے آنے لگے۔ ہمارے سکول میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے مولوی صاحب کو بلایا جاتا تھا۔ سکول کا موجودہ سینئیر اسٹاف ہی ان کا ہم مسلک تھا لہذا وہ مولوی صاح ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 6 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

ریاست چاہیے تو نظریات بچائیےنذر حافی[email protected]اگر ہم واقعتاً اس ملک سے کرپشن اور شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا پڑے گاکہ آخر ہماری نئی نسل میدانِ عمل میں آتے ہی کرپشن کی شکار کیوں ہو جاتی ہے اور شدت پسندوں کی کے پیچھے کیوں چلنا شروع کر دیتی ہے!؟ہمارے دینی مدارس اور کالجز کے طالب علم طالبان، القاعدہ اور داعش کے نظریات سے کیسے متاثر ہوجاتےہیں!؟ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس وقت مسلک وہابیت اور مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب میں کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دیوبندی مکتب کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں بھی کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سعودی عرب یا ہندوستان میں اہلحدیث، دیوبندی اور وہابی مسالک کے لوگ کبھی بھی اسلحہ نہیں اٹھاتے ! کیوں آخر کیوں!؟اس کے لئے ہمیں اپنی درسی کتابوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے نصابِ تعلیم اور ماحول میں ایسا کیا ہے کہ ہم کرپٹ بھی ہیں اور شدّت پسند بھی؟سی ٹی ڈی صوبہ سندھ کے مطابق اس وقت مدارس کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلی تعلیم یافتہ طالبعلم لے رہے ہیں۔ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق پہلے جو مدارس سے پڑھتے تھے وہ افغانستان یا وزیرستان جا کر جہاد کرتے تھے لیکن اب یہ نئی کھیپ جامعات سے تعلیم یافتہ ہے اور انھوں نے یہ جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کراچی میں داعش کی موجود گی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس، گلشن اق ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 7 تاريخ : يکشنبه 26 فروردين 1403 ساعت: 16:04

شیعہ عقائد اور حقائقنذر حافیPDFمغالطے کسی درد کا درمان نہیں کرتے۔ ہمارا مقصد کسی پروپیگنڈے کا جواب دینا یا جوابی پروپیگنڈہ ہرگز نہیں۔فقط حقائق کا انکشاف مقصود ہے۔صاحبانِ تحقیق بخوشی تحقیقی معیارات کے مطابق قلم فرسائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ ِ اسلام اور اہلِ تشیع ہم عمر ہیں۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں ہی صحابہ کرام کا ایک گروہ شیعانِ علی کہلاتا تھا۔ ابوحاتم رازی[1]، ابن خلدون[2]، محمد کردعلی[3]، صبحی صالح [4]، عبدالله عنّان [5]سمیت بہت سارے اہل سنت علما اور دانش مندوں نے لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی علیہ و آلہ کے زمانے میں ہی متعدد صحابہ کرام ؓ ؓ کو شیعیانِ علی کہاجاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے صحابہ کرام ؓ اُسی زمانے میں یہ جان گئے تھے کہ پیغمبرِ اسلام ؐ کی عدم موجودگی میں صرف حضرت علی ؑ ہی مسلمانوں کے سرپرست اور ولی ہیں۔ بطورِ خاص حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، مقداد بن اسوؓد، حضرت مالِكِ بنِ نوَيرَة، جابر بن عبداللهؓ، ابی بن کعبؓ، ابوالطفیل عامر بن واثلهؓ، عباس بن عبد المطلبؓ و اور ان کی تمام اولاد، عمار یاسرؓ ،ابو ایوب انصاریؓ ، أبى سعید الخدرى ، وحذیفة بن الیمان ، خزیمة بن ثابت ، خالد بن سعید بن العاص ، قیس بن سعد بن عُبادہ خَزرَجی کو شیعیان علیؑ میں سے جانا جاتا تھا۔[6] اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ نبیؐ کے زمانے میں ہی شیعیان علیؑ کا گروہ ہی نہیں تھا تو ہمیں خوشی ہو گی۔ نبی اکرمؐ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ گروہ نبی اکرمؐ کی احادیث اور تاکید کی روشنی میں حضرت امام علی ؑکی ولایت و امامت پر قائم رہا۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ کا مسئلہ پیش آیا تو اسی گروہ نے اربابِ اقتدار کے مدِّ مقابل مزاحمتی کردار اداکیا۔ ہم نہایت ہی فراخدلی کے ساتھ یہ ت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...ادامه مطلب
ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 24 تاريخ : جمعه 10 فروردين 1403 ساعت: 14:13