تین جون کے بعد
نذر حافی


کیا اسلام قصّہ پارینہ ہے؟ ۔ کیا دینِ اسلام کے پاس کسی قسم کا کوئی سیاسی، سائنسی، تعلیمی اور اقتصادی نظام نہیں؟۔ کیا دین فقط عبادات اور مذہبی رسومات کے مجموعے کا نام ہے؟۔ کیا مشکلات کے حل کیلئے دین کے پاس نت نئے فتووں، کچھ دعاوں، مخصوص چلہ کشیوں، روزانہ پڑھنے والے وظیفوں، گلے اور بازو پر باندھنے والے یا گھول کر پینے والے تعویزوں اور پھونکوں کے سوا کچھ بھی نہیں؟۔
اگر کچھ افراد لوگ کراچی جانے والی ٹرین کے ڈبوں کو لاہور جانے والے انجن کے پیچھے لگا دیں گے تو اُس ٹرین میں سوار سارے لوگ کراچی کے بجائے لاہور یعنی غلط منزل پر پہنچیں گے۔ اس میں آپ ٹرین یا انجن کو غلط کہیں گے یا انجن تبدیل کرنے والے حضرات کو؟ آج مسلمان جس منزل پر پہنچ چکے ہیں بلا شبہ یہ ان کی منزل نہیں تھی۔ لگتا ہے کہ کسی منزل پر اُمّت مسلمہ کی ٹرین کا انجن اور ٹریک تبدیل کر دیا گیاہے؟ اسی طرح اگرو ہزارں سال مزید مسلمان آگے چلتے جائیں گے تو وہ اپنی اصل منزل سے مزید دور ہوتے جائیں گے۔

مقام فکر ہے کہ منزل سے دوری کا علاج واپس اپنی خودی اور خالص دینِ اسلام کی طرف واپس پلٹنا ہے یا اغیار کے رنگ میں رنگ کر اُن کی چاکری کرنا ہے؟
کیا مسلمانوں کا اپنی خودی کی طرف پلٹنے سے مراد قرآن مجید کو رٹہ لگانا، لمبی داڑھی اور سرپر پگڑی رکھنا ہے یا زندگی کے تمام ترشعبوں میں امانتداری، حق پرستی ، رزقی حلال اور سچائی سے کام لینا ہے؟

ظاہری طور پر لباس، داڑھی ، پگڑی اور حُلیہ تو اخروٹ کے باہر والے چھلکے کی مانند ہے لیکن اُس چھلکے کے اندر جو مطلوب ہے وہ امانتداری، حق پرستی ، رزقِ حلال اور سچائی ہے۔
آج سے صرف چھیالیس سال پہلے ، جہانِ اسلام اس پر ایکا کر چکا تھا کہ مسلمانوں کیلئے بادشاہت ایک الہی نعمت ہے۔ مسلمان علما بادشاہوں کی اطاعت کو عبادت قرار دیتے تھے، بادشاہوں کی حصول اقتدار کی جنگوں میں مرنےوالوں کو شہادت کا ایوارڈ دیا جاتا تھا، اور جمہوریت ایک کُفر تھا۔
بادشاہوں کے زیرِ سایہ درباری ملاوں کی اپنی ایک سلطنت تھی، اغیار سائنس و ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت میں برق رفتار ترقی کر رہی تھے جبکہ نام نہاد علما ئے اسلام نے لوگوں کو سُنی و شیعہ میں تقسیم کرکے مناظروں کا بازرا گرم کر رکھا تھا۔ کلمہ حق کہنے والے علما کو زندانوں میں ڈال دیا جاتا تھا جبکہ درباروں میں مذاہب و مسالک کے نام پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے قلم و بیان کی طاقت کا استعمال عام تھا ۔ ایک بڑے عرصے تک مسلمانوں کو ایک اُمّت بنانے کے بجائے اُنہیں اسلام سے نکالنے اور ٹکڑوں میں تقسیم کر کے آپس میں لڑوانے کو جہاد سمجھا جاتا رہا۔
بالاخر مسلمانوں کے ہاں اسلام فقط اتنا بچا تھا کہ نومولود کا نام اسلامی رکھ کر اُس کے دائیں کان میں اذان، بائین کان میں اقامت دے کر اُس کا ختنہ کر دیا جاتا تھا، باقی ساری زندگی وہ مذہبی رسومات میں پھنسا رہتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اسلام نے اُس کی ترقی ، فلاح و بہبود اور رُشد کا بھی کوئی سامان فراہم کیا ہے یا نہیں۔
ایسے میں ۱۱ فروری ۱۹۷۹ کو ایران میں اسلامی انقلاب آیا۔ اسلامی انقلاب یعنی اسلام اپنی حقیقی شکل میں دوبارہ طلوع ہوا۔ حضرت امام خمینی نے مسلمانوں کو چلہ کشیوں، روزانہ پڑھنے والے وظیفوں، گلے اور بازو پر باندھنے والے یا گھول کر پینے والے تعویزوں اور پھونکوں سے نکال کر اسلام کو سمجھنے اور عملی کرنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت ، اسلامی جمہوریّت کے ہمراہ تھی۔ اسلامی جمہوریت یعنی تھیو کریسی اور بادشاہت دونوں کا خاتمہ۔

مشرق و مغرب کی ساری طاقتیں اس اسلامی جمہوریت کو روکنے میں مصروف ہو گئیں، اور فتووں و درہم و دینار کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ بڑی مشکلات اور کٹھن حالات سے یہ انقلاب گزرا ۔ بالاخر ۳جون ۱۹۷۹ کو حضرت امام خمینی ؒنے اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ یہ وہ روز تھا کہ حب ساری اسلام دشمن طاقتیں، ان کے آلہ کار اور ان کے پروپیگنڈے سے متاثرہ و فریب خوردہ مسلمان یہ چہ مہ گوئیاں کرنے لگے کہ حضرت امام خمینی ؒ کے بعد یہ اسلامی انقلاب مزید نہیں چلے گا۔
لازم ہے کہ اس سال ۳ جون ۲۰۲۴ کو ہم سب یہ جائزہ لیں کہ حضرت امام خمینیؒ کے بعد اسلامی انقلاب آگے بڑھا یا نہیں؟ مزید چلا یا نہیں؟ اس انقلاب نے ترقی اور فلاح و بہبود کے مزید زینے طے کئے یا نہیں؟
علم و اجتہاد کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی میں اس انقلاب نے کامیابی کی مثالیں قائم کیں یا نہیں؟۔۳ جون ۱۹۸۹کو حضرت امام خمینی نے ملت اسلامیہ کو عزت و استقلال کا راستہ دکھانے کے بعد اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں، آپ نے مسلمانوں کو آگاہ اور خبردار کیا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ اس دنیا میں دو بڑے شیطان ہیں۔ ۳ جون ۱۹۸۹کے بعد آج ساری دنیا ان دونوں بڑے شیطانوں کو پہچان چکی ہے۔ ۳ جون ۱۹۷۹ تک دنیا کو شک تھا کہ اسلامی نظامِ حکومت چلے گا بھی یا نہیں، آج اسلامی نظام حکومت کے پاس چھیالیس سالہ یعنی نصف صدی کا کامیاب تجربہ بھی ہے۔
تین جون ۱۹۸۹کے بعد اس انقلاب نے دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت کا لوہا منوایا، داعش، القاعدہ اور طالبان کے بجائے دینِ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے رکھی، ساری دنیا خصوصاًفلسطین، شام، عراق ، بحرین، یمن اور لبنان میں بصیرت، مقاومت، اور وحدت اسلامی کی عظیم الشّان مثالیں قائم کیں۔
حضرت امام خمینی نے فرمایا تھا کہ وہ زمانہ گزر گیا جب امریکہ اپنے اسلحے اور طاقت کے بل بوتے پر دوسرےممالک پر قبضہ کیا کرتا تھا۔ آج ۳ جون ۲۰۲۴ کو اسلامی انقلاب اتنی ترقی کر چکا ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ سمیت ساری طاغوتی طاقتوں کیلئے یہ واضح پیغام ہے کہ " دوران بزن در رو گزشتہ، بزنید می خوری" ۔۔۔مار کر بھاگنے کا زمانہ ختم ہو گیا ہے، مارو گئے تو منہ کی کھاو گئے۔


افکار و نظریات: daily, weekly, news, monthly