مجھے بچا لو، میں ماں ہوں!
تحریر: کرامت علی جعفری


زمین ماں ہوتی ہے۔ ماں سے بے وفائی نہیں کی جا سکتی ۔ زمین کے سوداگر یہ نہیں جانتے کہ زمین کی کیا قیمت ہوتی ہے ۔وطن عزیزکی زمین کے حصول کے لیے خواتین کے سہاگ اجڑ گئے، بچے یتیم ہوگئے، بزرگان سے ان کے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا لیکن انھوں نے صبر کیا کیونکہ زمین ماں ہوتی ہے۔ اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ دینی اقدار کے احیاء وترویج ، آزدی رائے،احکامات الہیٰ کی حاکمیت کے لئے زمین لازم ہے ۔
اس بات کی تصدیق تاریخ اسلام میں دیکھے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی اس عظیم ہجرت سے ہوتی کہ جب مکہ میں کفار مکہ نے آپﷺ اور آپ کے رفقاء پر مکے کی سر زمین کو تنگ کردیا تو آپ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں اسلامی حکومت تشکیل دی۔
انصار مدینہ نے بے دریغ جانبازی، جانثاری اور فدا کاری کا ثبوت دیا۔ رسول خدا ؐکے حکم سے مہاجرین کو اپنا بھائی قرار دے کر اپنے اموال اور زمینوں کو مہاجر بھائیوں میں تقسیم کیا اور خدائی احکامات کو سر زمین مدینہ میں نافذ کیا اور اس طرح وہاں ایک الہی حکومت کی تشکیل پائی۔ جسے ریاست مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی معیشت و اقتصاد کیلئے سر زمین مدینہ ریڑھ کی ہڈی مانند تھی کیونکہ ریاست کا قیام، احکامات الہیٰ کا نفاذ مسلمانوں کی زندگی کے وسائل سرزمین مدینہ سے وابستہ تھے۔ اگر مدینے جیسی سرزمین مسلمانوں کے پاس نہ ہوتی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے کیا مشکلات پیش آتیں ان کا ہم ادراک بھی نہیں کر سکتے۔
دین کی بالا دستی کیلئے فقط درست عقیدہ کافی نہیں، اس کیلئےایک زمین کا ایک ٹکڑا بھی چاہیے۔ جن لوگوں کے پاس زمین نہیں ہوتی انہیں غلامی کی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کی طرف ذرا نظر اٹھا کر دیکھیں۔ فلسطین اور کشمیر سے ہمیں زمین کی اہمیت بخوبی پتہ چلتی ہے۔ اب سر زمین بلتستانکی بھی کچھ بات ہو جائے۔
اب یہاں ایسے ایسے افراد قابض ہیں جو اپنی وقتی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی ماں یعنی زمین کی سوداگری میں مصروف ہیں ۔ کوئی گاڑیوں میں پھر نے کے شوق میں زمین کا سوداگر بنا ہے ، تو کوئی گھر کے سامنے دو تین گاڑیاں کھڑی کرنے کے شوق میں ، کوئی شہر میں گھر لینے کی خواہش میں ، تو کوئی بیرون ملک نوکری کے شوق میں۔
سب اپنی ذاتی ملکیت بیچنے میں اتنے مصروف ہیں کہ یہاں کی غیر آباد زمینوں کا تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جال بچھائے شکاریوں نے ترقیاتی منصوبوں اور مختلف سکیموں کے نام استعمال کر کے خالی زمینوں کو اپنے تحویل میں لینا شروع کر دیا ہے۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے ہر طرف پیسہ کمانے کی ہوس طاری ہے۔
چند با شعور افراد کی مزاحمت کو زمین کے سوداگر ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ، تنگ نظری اور شدت پسندی قرار دے کر اغیار کی دلالی میں بے وفائی کی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ان زمین کے سوداگروں اور بے ضمیروں کی وجہ سے سر زمین بلتستانمقامی لوگوں کے ہاتھوں سے نکلتی نظر آ رہی ہے ۔ ساتھ ہی باشعور غیرت مند اور بابصیرت افراد کو پکار پکار کر صدا دے رہی ہے کہ میں ماں ہوں مجھے بچا لو ، میں ماں ہوں مجھے اغیار کے ہاتھوں فروخت مت کرو ، مجھے گرین کمپنی جیسے گمنام اور مکار اداروں کے شر سے تحفظ دو ۔۔۔ ماں پکار رہی ہے لیکن بیٹے بہرے ہو چکے ہیں، چندٹکوں کے عوض بہروں کی مانند سُنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی ماں کو بیچ رہے ہیں۔یہی تو وہ لوگ ہیں جو گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔

مقبول ترین


افکار و نظریات: daily, weekly, news, monthly